کیا قرآن کریم نے متعہ کی اجازت دی ہے
متعہ کی تعریف
 متعہ کی لغوی معنی ہیں فائدہ اٹھانے کی ، عرب میں جہالیت کے زمانے میں جب لوگ اپنے شہر سے باہر جاتے تھے تو وہاں اگر ان کا قیام بہت زیادہ ہوتا تھا تو وہ لوگ عورتوں سے اجورے پر مقرر مدت تک فائدہ لیتے تھے جسے متعہ کہا جاتا ہے۔
عرب اور متعہ
عرب میں جہالیت کے زمانے میں متعہ کا رواج عام تھا بہت سے ایسے مثال موجود ہیں اور تاریخی اور روایات احادیث سے اس بات میں زرہ سا شک نہیں رہتا کہ متعہ عام تھا اور عام طور پر کیا جاتا تھا صرف عرب میں نہیں دوسری علائقوں میں بھی اس قسم کی رسم عام تھی جیسے ہندستان ایران روم وغیرہ ۔

 شیعوں کی طرف سے متعہ کے جائز ہونے کے دلائل

شیعہ کے ہاں متعہ کو جائز قرار دیا جاتا ہے اور وہ آج تک متعہ کرتے رہتے ہیں حالانکہ اللہ تعالئ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے اس سے منع کیا ہے جس کو ہم یہاں تحریر میں لائین گے اور انشاءاللہ  غیر جانب داری سے سچ کو پرکہنے والے ہم سے اس بات پر اتفاق کریں گے۔کہ قرآن کریم میں متعہ کیا زکر نہیں ہے۔ عام طور پر شیعہ سورہ نساء کی آیت 24 کی ایک حصہ سے اپنا استدلا ل کرتے ہیں اور پھر کچھ احادیث بھی پیش کرتے ہیں جن سے وہ متعہ کا جواز تلاش کرتے ہیں یاد رہے شیعہ مذہب میں متعہ جائز ہے اسلئے ہم ان کی کتب سے صرف اسی صور ت میں استدلا ل لیں گے جہان متعہ کی نہی کی گئی ہو باقی اس کی حمایت میں تو شیعہ کے ہام مکمل تحاریر ہیں ۔ ہم صرف یہاں اہل سنت کی ہی روایات دیکہیں گے جہاں سے شیعہ متعہ کے جواز کا استدلال کرتے ہیں۔ اس سے پہلے ہم شیعوں کی طرف پیش کردہ آیت قراآنی کو دیکہتے ہیں۔

آیت سورہ نساء

 وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ( 24 )

اور شوہر والی عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو (اسیر ہو کر لونڈیوں کے طور پر) تمہارے قبضے میں آجائیں (یہ حکم) خدا نے تم کو لکھ دیا ہے اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اس طرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو ان کا مہر جو مقرر کیا ہو ادا کردو اور اگر مقرر کرنے کے بعد آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرلو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے

سورہ نساء اس آیت کے بارے میں شیعہ کا کہنا ہے کہ اس میں متعہ کا کہا گیا ہے ۔۔ ہم اس مکمل آیت کو زیر نظر لائین گے

اول : شیعوں کا اس سورہ سے استدلال باطل ہے

کیوں کہ اس آیت میں مقررہ وقت کا کوئی زکر نہیں ہے بس اتنا زکر ہے کہ اگر عورتوں سے فائدہ اٹھانے کا زکر یعنی یہ حکم ہے کہ اگر فائدہ اٹھاو تو ان کو حق مہر پورہ دے دو ۔ کیوں اس پہلے سورہ بقرہ میں زکر ہے کہ اگر نکاح کے بعد فائدہ نہیں اٹھایا اور الگ ہونے کی سوچ ہے تو ادھا مہر دے دو۔۔۔۔ اور یہاں زکر ہے کہ فائدہ اٹھاو تو پھر پورہ دینا لازم ہے یہاں پر کہیں بھی مقررہ مدت تک فائدہ اٹھا نے کا زکر نہیں ہے بلکہ عمومیت کے ساتھ فائدہ اٹھانے کا زکر یعنی مستقل نکاح۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ عمومی نکاح یہی ہے متعہ خاص صورت میں جائز تھا جسے بعد میں بلکل منع کردیا گیا ۔۔۔ اس بات سے شیعہ بھی متفق ہیں کہ یہ خاص صورت میں جائز ہے نہ کہ عمومی طرح۔۔۔۔۔۔۔۔ بس یہ ایت کسی بھی صورت میں نکاح متعہ کے لئے نہیں ہے بلکہ نکاح مستقل کے لئے ہے شیعہ بس لفظ استمتعتم یعنی فائدہ لینا اس کی وجہ خواہ مخواہ اسے متعہ کی طرف کہنچتے ہیں کیوں کہ آدمی سب سے زیادہ فائدہ اپنی بیوی سے لیتا ہے اور متعہ والی عورت بیوی نہیں ہوتی یہ ہم آگے ثابت کریں گے۔

دوم : اس آیت سے پہلی آیت ۲۳ میں ان عورتوں کا زکر کیا گیا ہے جن سے آپ نکاح نہیں کر سکتے ہیں پھر اس آیت ۲۴ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کی نیت احصان کرنے کی ہو صرف شہوت پوری کرنا مقصود نہین ہو اسی آیت میں الفاظ محصنین اور غیر مسافحین اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ یہ آیت متعہ کے لئے ہے

میری ایک شیعہ مناظر سے متعہ پر بات ہو رہی تھی تو موصوف فرماتے ہیں

 سنیوں کی ہر مستند کتاب میں جہاں متعہ کا زکر وہاں لفظ استمتعت استعمال ہوا ہے اس لئے آیت ۲۴ متعہ کے لئے ہے۔۔۔””

لفظ استعمتعتم 
ہم لفظ استمتاع کو دیکھ لیتے ہیں جیسے قرآن کریم میں ہے
اذہبتم طیباتکم فی حیاتکم ادنیا واستمتعتم بھا (احقاف 20) ، فاستمتعو بخلاقھم (التوبہ 69) ، والذین کفرو یتمتعون و یاکلونکما تاکل الانعام ( محمد 12)،ربنا استمتع بعضنا ببعض (الانعام 128) یہاں ہر جگہ اس لفظ کی معنی فائدہ اٹھانہ ہے

صحیح بخاری کی حدیث ہے

وحدثنا يحيى بن أيوب وقتيبة بن سعيد وعلي بن حجر قالوا حدثنا إسمعيل بن جعفر أخبرني ربيعة عن محمد بن يحيى بن حبان عن ابن محيريز أنه قال دخلت أنا وأبو صرمة على أبي سعيد الخدري فسأله أبو صرمة فقال يا أبا سعيد هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر العزل فقال نعم غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة بلمصطلق فسبينا كرائم العرب فطالت علينا العزبة ورغبنا في الفداء فأردنا أن نستمتع ونعزل فقلنا نفعل ورسول الله صلى الله عليه وسلم بين أظهرنا لا نسأله فسألنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لا عليكم أن لا تفعلوا ما كتب الله خلق نسمة هي كائنة إلى يوم القيامة إلا ستكون

حضرت ابو سعید الخدری نے کہا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا بنی مصطلق میں اور عرب کی بڑی بڑی عمدہ عورتین کو ہم نے قید کیا اور ہم کو مدت تک عورتوں سے جدا رہنا پڑا اور خواہش کی کہ ہم نے ان عورتوں کے بدلے میں کفار سے کچھ مال لیں اور ارادہ کیا ہم ان سے نفح بھی اٹھائیں اقر عزل کریں تاکہ حمل نہ ہو پھر ہم نے کہا کہ ہم عزل کرتے ہیں اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیاں موجود ہیں ہم ان سے پوچھیں کیا بات ہے پھر ہم نے پوچھا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا تم اگر نہ کرو تو بھی حرج نہیں اور اللہ تعالی جس روح کو پیدا کرنا قیامت تک لکہا ہے وہ تو ضرور پیدا ہوگی۔)صحیح مسلم کتاب النکاح باب حکم عزل)

یہ عزل کی روایت ہے یہاں پر بھی لفظ استمتاع استمعال ہوا ہے لیکن یہاں اس کی معنی فائدہ اٹھا نے کی ہیں نہ کہ نکاح متعہ کی کیوں کہ جنگ ہاتھ آئی عورتیں جو کہ لونڈیاں تھیں اور پہلے سے ان کے لئے حلال تھیں وہاں عقد متع کی کیا ضرورت ہے ۔

اور پھر نکاح دائمی میں بھی عورت سے فائدہ ہی اٹھایا جاتا ہے جیسے نسل کا چلنا ، گھر کا خیال کرنا وغیرہ یہ دائمی فوائد ہیں اس لئے اس لفظ کا یہاں ہونا کوئی بڑی بات نہیں ۔ اور پھر متعہ میں بھی عورت سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن وہ صرف اور صرف جنسی ہوتا ہے کیوں کہ متعہ سواء شھوت پوری کرنے کے اور کوئی فائدہ نہیں دیتا اس لئے یہ چیز بعید از قیاس ہے کہ قرآن کریم کا فائدہ اٹھانے کا مقصد صرف شھوت پوری کرنا ہوگا۔ بلکہ قرآن کریم نے استمتعتم یعنی فائدہ اٹھانے سے پہلے محصنین  اور مسافحین جیسے الفاظ استمعال کر کہ اس چیز کو بلکل ختم کر دیا کہ یھاں فائدہ اٹھانے سے مراد صرف شھوت پوری کرنا ہے۔

أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً (24)
بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو ان کا مہر جو مقرر کیا ہو ادا کردو۔

یہاں دیکہیں صاف الفاظ میں شھوت رانی سے منع کیا جا رہا یعنی فائدہ اٹھاؤ لیکن مقصوہ شھوت رانی نہ ہو مطلب اس فائدے سے مراد نسل کا چلنا ، گھر کا خیال کرنا وغیرہ۔ اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔

پھر شیعہ کہتے ہیں سورہ نساءمیں جب اس آیت سے پہلے والی آیت میں نکاح دائمی کا زکر ہے تو پھر اس کے بعد والی آیت میں دوبارہ اس کا زکر کیوں کیا گیا۔ 

یہ بلکل غلط ہیں کیوں کہ آیت 23 مین کن عورتوں سے نکاح حرام ہے اس کا زکر ہے جو کہ 24 کا مضمون ایک ہی ہے ۔۔۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے ۔

آیت ۲۳

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا ( 23)
تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو اور رضاعی بہنیں اور ساسیں حرام کر دی گئی ہیں اور جن عورتوں سے تم مباشرت کر چکے ہو ان کی لڑکیاں جنہیں تم پرورش کرتے (ہو وہ بھی تم پر حرام ہیں) ہاں اگر ان کے ساتھ تم نے مباشرت نہ کی ہو تو (ان کی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کر لینے میں) تم پر کچھ گناہ نہیں اور تمہارے صلبی بیٹوں کی عورتیں بھی اور دو بہنوں کا اکٹھا کرنا بھی (حرام ہے) مگر جو ہو چکا (سو ہو چکا) بے شک خدا بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے۔
آیت 24
وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ( 24 )
اور شوہر والی عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو (اسیر ہو کر لونڈیوں کے طور پر) تمہارے قبضے میں آجائیں (یہ حکم) خدا نے تم کو لکھ دیا ہے اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اس طرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو ان کا مہر جو مقرر کیا ہو ادا کردو اور اگر مقرر کرنے کے بعد آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرلو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے۔

اب دیکہیں کہ آیت 23 کا اختتام دو بھنوں کو ایک ساتھ نکاح کرنا حرام ہے پہ ختم ہوتی ہے اور پھر آیت 24 شوہر والی عورتین تم پر حرام ہیں سے شروع ہوتی ہے مطلب آیت 24 کی شروعات آیت 23 کا تسلسل ہے ۔یعنی آیت 24وہی مضمون چل رہا ہے کن سے نکاح حرام ہے اس کے بعد اسی آیت میں کہا جا رہا ہے کہ   

وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ کہ اس کے علاوہ اور عورتیں تم پر حلال ہیں اس کے ساتھ یہ کہا گیا ہے کہ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۔ یعنی عفت قائم رکہنا مقصود ہو اور شھوت رانی کی نیت نہ ہو تو ان سے فائدہ اٹھاؤ لیکن اس پھلے انہیں حق مہر ادا کردو۔

یعنی پھر کہا جا رہا ہے کہ باقی عورتیں حلال ہیں آپ کے لئے اور نکاح کرنے کے بعد فائدہ اٹھانے سے پہلے مہر کا دینا لازم کردیا گیا پھر آپ آیت ۲۵ کو دیکہیں کہ وہ بھی آیت ۲۴ کا تسلسل ہے کیوں کہ اس میں زکر ہے کہ آگر آپ کو آزاد عورت سے نکاح کی طاقت نہیں تو لونڈیوں سے نکاح کر لو۔۔۔ینعی آیت 24 اور 25 ہی اصل میں نکاح دائمی کے لئے ہیں یہاں شعیہ موصوف کی قیاس آرائی نہیں چلنے والے۔۔

آیت 25 
وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلًا أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ۚ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُم
اور جو شخص تم میں سے مومن آزاد عورتوں (یعنی بیبیوں) سے نکاح کرنے کا مقدور نہ رکھے تو مومن لونڈیوں میں ہی جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں (نکاح کرلے) اور خدا تمہارے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے

اب اگر اوپر والی آیت متعہ کے لئے ہوتی تو پھر اللہ تعالی ازاد عورت کے ساتھ نکاح کرنے طاقت نہ رکھنے پر ایمان والی لونڈی سے کیوں نکاح کا کیوں کہ رہے ہیں ۔اور نکاح پہ کیوں زور دیا جا رہا ہے ۔
اگر نکاح کی طاقت یعنی مھر ادا کرنی کی طاقت نہیں ی تو پھر متعہ تو آسان ہے نہ نفقہ کی فکر نہ طلاق و دوسری جنجھٹ تو وہ ازاد عورتوں سے متعہ تو کر سکتے تھے نہ ایک بار متعہ کیا بس عورت جانے اس کا کام گھر والی تو پھر بھی خرچہ لیتے ہے متعہ والی تو تھوڑی سی چیز اور بس ۔ اللہ تعالی فرما دیتے کہ نکاح نہیں کر سکتے تو تھمارے لئے دوسری آسان صورت ہے یعنی متعہ اسے کر لو ۔ نہیں بلکہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ پھر ایمان والی لونڈی سے نکاح کر لو کیوں کہ اس میں مھر کم لگے گی۔

اس صاف صاف پتہ چلتا ہے کہ یہاں کسی بھی صورت میں کہیں بھی متعہ مطلب نہیں ہے بلکہ نکاح مراد ہے۔

سورہ نساء کی 24 میں استمعال کئے گئے الفاظ محصنین و غیر مسافحین۔

لفظ محصنین و غیر مسافحین

محصنین
لفظ محصنین کی اصطلاحی معنی ہیں حصار نکاح میں محفوظ رکھنے والے ۔ جس کا مطلب ہے کہ کسی عورت کو نکاح میں محفوظ رکھنا یا پھر احصان عفت کے ساتھ نکاح میں رکھنا اور احصان تب ہی ممکن ہے جب آپ کسی عورت کو عقد دائمی میں رکہیں نہ کہ چند گھنٹوں کے لئے کرایہ پر لیں۔ ایک ایسی عورت جو بہت سے مردوں کے ساتھ متعہ کر چکی ہے اسے آپ عفیفہ ہر گز نہیں کہ سکتے ۔اور خود شیعہ مذہب میں بھی متعہ والی عورت کو عار یتہ الفرج کرائی پر مانگی گئی شرمگاھ یا پھر ٹھیکہ پہ لی گئی چیز کہا گیا ہے
ملاحضہ ہو
الاستبصار لشیخ طوسی جلد ۳ ص 141
فأما ما رواه الحسين بن سعيد عن فضالة بن أيوب عن أبان بن عثمان عن الحسن العطار قال: سألت أبا عبد الله عليه السلام عن عارية الفرج قال: لا بأس به،

یعنی ابی عبداللہ سے پوچھا گیا کہ کیا شرمگاہ کرایہ یا پر لے سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ اس مین کوئی حرج نہیں ہے۔
اب ایسی عورت جو اپنی شرمگاھ ٹھیکے پر دے اسے کیسے عفیفہ کہا جاسکتا ہے ?

یہ صحیح ہے کہ لفظ سفاح کا مطلب زنا بھی ہے پر زنا شہوت رانی کے لئے ہی کیا جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہین کہ اس لفظ کی معنی شہوت رانی کیا جائے۔ اور پھر یہ بھی صحیح ہے جب اس کے ساتھ قرآن کریم نے محصنین جیسا لفظ استمعال کیا ہے جہاں اس کا مطلب ہے جو عورتیں تمھارے لئے حلال ہوں ان سے احصان (یعنی عقد دائمی ) کے ساتھ نکاح صرف شھوت رانی مقصود نہ ہو یہ بلکل صاف بیان جس میں کسی بھی قسم کی ڈنڈی مارنے کی ضرورت نہیں ہے ان دونوں لفظوں کی موجودگی ہی یہ بتا رہی کہ یہ آیت عقد دائمی پر دلالت کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر اس آیت میں دو قسم کے تعلقات کو بیان کیا گیا ہے ایک احصان دوسرہ مسافحت
متعہ ان دونوں میں سے ایک میں ہے احصان میں تو ہو نہیں سکتا کیوں کہ احصان میں تعلق مستقل ہوتا ہے اور متعہ میں وقتی احصان میں عورت کے مرد پر حقوق ہوتے ہیں متعہ میں ایسا نہیں احصان میں اولاد کی زمیداری باپ پر ہے متعہ میں ایسا نہیں ہے مزید آپ ہی فیصلہ کریں کہ متعہ کس میں آتا ہے۔
اور پھر نکاح اور سفاح میں یہی تو فرق ہے کہ نکاح سے مقصود جنسی ضرورت کو پورا کرنا کے علاوہ اولاد پیدا کرنا اور دوسرے فائدے لینا ہوتا ہے جبکہ سفاح صرف اور صرف جنسی فائدہ مراد ہوتا ہے ۔ اور متعہ میں یہی چیز ہے وہ صرف اور صرف جنسی لذت کو پورا کرنے کے لئے کیا جاتا ہے اس لئے شیعہ کتب میں اسے عاریتہ الفرج یعنی مانگی ہوئی شرمگاھ کہا گیا اور یہی الفاظ محصنین و غیر مسافحین ہی اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ متعہ حرام ہے

اس کی شاہدی آپ کو سلف کے روایت سے دے دیتا ہوں (تفسیر ابن ابی حاتم سورہ نساء آیت 24)

حدثنا أبو سعيد الأشج، ثنا إسحاق بن سليمان، عن موسى بن عبيدة قال: سمعت محمد بن كعب القرظي، عن ابن عباس قال: كانت متعة النساء في أول الاسلام ، كان الرجل يقدم البلدة، ليس معه من يصلح له ضيعته ولا يصلح بحفظ متاعه، فيتزوج المراة إلى قدر ما يرى أنه يفرغ من حاجته، فتنظر له متاعه وتصلح له ضيعته، وكان يقول: فما استمتعتم به منهن نسختها محصنين غير مسافحين وكان الاحصان بيد الرجل، مسك متى شاء ويطلق متى شاء.
ابن ابی حاتم نے ابن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ابتدائے اسلام میں متعہ کی اجازت تھی ایک آدمی شھر میں اتا اس کے پاس کوئی ادمی نہیں ہوتا جو اس کے معاملات و سامان کی حفاظت کرے وہ اتنے عرصے کے لئے ایک عورت سے متعہ جس میں وہ خیال کرلیتا جس سے وہ خیال کرتا وہ اہنے کام سے فارغ ہوجائے گا وہ عورت اس کے معاملات کی حفاظت کرتی وہ اس آیت کو یوں قرآت کرتے فما استمتعتم بہ منھن الی اجل المسمی پھر اسے محصنین غیر مسافحین نے منسوخ کردیا احصان مرد کے ہاتھ میں ہوتا ہے جب چاہے رکھے جب چاہے چھوڑے۔

سورہ نساء کی آیت 24 کے الفاظ کتاب اللہ علیکم پر غور کریں

اس کی تفسیر مفسرین نے اس کی مراد چار بیویوں کی حد یا اس سے مراد وہ عورتیں جو کہ چار کے عدد تک مستقل نکاح میں رہیں مراد لیا ہے۔
جامع البيان – إبن جرير الطبري – ج ٥ – الصفحة ٣
حدثنا القاسم، قال: حدثنا الحسين، قال: ثنى حجاج، عن ابن جريج، قال: سألت عطاء عنها فقال: * (كتاب الله عليكم) * قال: هو الذي كتب عليكم الأربع أن لا تزيدو
ینعی عطاء کہتے ہیں کتاب اللہ علیکم سے مراد چار ہیں اس سے زیادہ نہیں۔

تفسير الثعلبي
قال الباقر ويمان: معناه والمحصنات من النساء عليكم حرام ما فوق الأربع، ینعی پاکدامن عورتوں میں سے چار کے اوپر حرام ہیں۔

تفسیر قرطبی جلد 5 ص 120
وقالعبيدة السلمانيوغيره: قوله (كتاب الله عليكم) إشارة إلى ما ثبت فيالقرآنمن قوله تعالى: (مثنى وثلاث ورباع) ۔
السلمانی کہتے ہیں کہ کتاب اللہ علیکم سے مراد قرآن کریم کی وہ آیت ہے جس میں اللہ تعالی نے فرمایا مثنى وثلاث ورباع)

بلکل اسی طرح کا مضمون تفسير ابن كثير، تفسير الثعالبي ، فتح القدیر لشوکانی وغیرہ میں موجود ہے چناچہ اس آیت 24 مین بتایا جا رہا ہے کہ وہ عورتیں جو تم پر حلال ہیں مال (مھر) خرچ کر کہ ان سے نکاح کرلو لیکن چار سے زیادہ نہ ہو یعنی اس پر جو حد مقرر ہے(کتاب اللہ علیکم مقصد جو کتاب اللہ میں لکھدیا گیا ہے یعنی سورہ نسا کی آیت 3) اس میں رہ کر (یعنی چار سے زیادہ نہیں) مقصود احصان و عفت داری ہو نہ کہ صرف شھوت پوری کرنا تو جب ان سے فائدہ اٹھاؤ تو ان کو پورا مھر ادا کردو۔

کیا متعہ میں بھی چار عورتوں کی قید ہے کیا ممتوعہ عورت بھی زوجہ ہے

جواب ہے نہیں ملاحضہ ہو شیعہ روایات

شیخ مفید رسالہ متعہ میں لکہتے ہیں
،۔ وعن أبي بصير أنه ذكر للصادق – عليه السلام – المتعة هل هي من الأربع؟ فقال: تزوج منهن ألفا. یعنی امام جعفر نے کہا وہ چار زوج میں سے نہیں ہے بلکہ تم ان میں سے ہزاروں سے شادی کر لو۔

پھر طوسی الاستبصار میں لکہتے ہیں
عنه عن محمد بن يحيى عن أحمد بن محمد عن ابن محبوب عن ابن رئاب عن زرارة بن أعين قال: قلت ما يحل من المتعة؟ قال: كم شئت.
یعنی زراہ نے کہا کہ جتنی عورتوں سے چاہو متعہ کر لو۔

چناچہ اشیعہ نے دیکہ لیا کہ یہاں تو ہزار تک کی اجازت ہے مطلب یہ کہ آیت 24 کے ضد میں ہے اور پھر آشیعہ کو معلوم ہونا چاہئےکہ کہ زوجہ بنص قرآن کریم وارث بنتی ہے اور ان کی حد چار تک ہے یعنی زوجہ وہ ہوتی ہے جو چار والی شرائط پورے کرے اور ان کو عام لغت میں چار کہتے ہیں اور پھر شیعہ کے پاس تو ممتوعہ چار میں سے بھی نہیں ہے۔

شیخ مفید رسالہ المتعہ ص ۹ پہ لکہتے ہیں
وعن ابن قولويه، عن أبيه، عن سعد، عن ابن عيسى، عن محمد ابن خالد، عن القاسم بن عروة، عن عبد الحميد، عن محمد بن مسلم في المتعة قال: ليس من الأربع لأنها لا تطلق ولا ترث.

یعنی ممتوعہ چار میں سے نہیں ہے کیوں کہ اس کے لئے نہ تو طلاق ہے اور نہ ہی وراثت

یہاں آپ نے دیکہ لیا کہ شیخ مفید بھی زوجہ اسے کہتے ہیں کو وارث بنتی ہو۔

پھر طوسی بھی الاستبصار میں یہی کچھ لکہتے ہیں
محمد بن يعقوب عن الحسين بن محمد عن أحمد بن إسحاق الأشعري عن بكر بن محمد الأزدي قال: سألت أبا الحسن عليه السلام عن المتعة أهي من الأربع؟ قال: لا.

یعنی امام ابی الحسن نے کہا کہ وہ چار مین سے نہیں ہے

محمد بن أحمد بن يحيى عن العباس بن معروف عن القاسم بن عروة عن عبد الحميد الطائي عن محمد بن مسلم عن أبي جعفر عليه السلام في المتعة قال: ليست من الأربع لأنها لا تطلق ولا ترث ولا تورث وإنما هي مستأجرة

یعنی امام باقر کہتے ہیں کہ وہ چار میں سے نہیں ہے کیوں کہ وہ وارث نہیں اس کی طلاق نہیں اور پھر وہ تو ٹھیکہ پر لی گئی عورت ہے
امام نے بات صاف کردی کہ وہ زوجہ کیسے ہو سکتی ہے وہ تو ٹھیکہ پر لی جانے والی عورت ہے ۔ (یہ روایت کافی میں بھی موجود ہے)
پھر امام صادق سے بھی یہ مروی ہے
عنه عن الحسين بن محمد عن أحمد بن إسحاق عن سعدان بن مسلم عن عبيد بن زرارة عن أبيه عن أبي عبد الله عليه السلام قال: ذكر له المتعة أهي من الأربع؟ قال: تزوج منهن ألفا فإنهن مستأجرات.

یعنی امام صادق کہتے ہیں کہ یہ چار (ینعی منکوحہ عورتیں جنھیں قرآن نے زوجہ ٹھرایہ ہے) نہیں ہیں ان میں ہزار سے متعہ کر لو کیوں کہ وہ تو ٹھیکہ پر لی گئی شرمگاہیں ہیں۔

ان روایات سے ثابت ہوا کہ ممتوعہ چار عورتوں یعنی بیویوں میں سے نہیں ملکہ کرایہ پر لی گئی شرمگاہ ہے یعنی رنڈی۔

شیعہ کا سوال

عقد متعہ میں ‘محصنین’ اور ‘غیر مسافحین’ کی یہ شرائط مکمل پوری ہوتی ہیں کیونکہ عقد متعہ میں عورت ایک مرد کے ہی حصار میں ہونے کی وجہ سے عفیفہ و پاکدامن ہوتی ہے، اور یہ سفاح کاری [زناکاری و بدکاری] اس لیے بھی نہیں کہ کہ عقد متعہ میں شریعت کے تمام اصول و شرائط کی پاسداری کی جا رہی ہوتی ہے جیسا کہ زناکاری کے برعکس عقد متعہ میں محارم عورتوں سے بدکاری نہیں ہو سکتی، اولاد کی تمام تر ذمہ داری مرد پر عائد ہے، عقد متعہ اُسی عورت سے ہو سکتا ہے جو عدت گذار کر پاک ہو چکی ہو، اور عقد متعہ ختم ہونے کے بعد بھی وہ عدت گذار کر ہی کسی اور شخص کے ساتھ نکاح یا متعہ کر سکتی ہے۔ الغرض عقد متعہ میں وہ تمام شرائط موجود ہیں جو کہ نکاح میں موجود ہیں سوائے اس شرط کے کہ ایک مدت کے بعد خود بخود طلاق ہو جاتی ہے۔

ہمارہ جواب

یہ بات بعید از قیاس ہے کہ متعہ والی عورت عفیفہ رہتی ہے کیوں کہ متعہ میں ٹائم کی کوئی قید نہیں اس لئے عین ممکن ہے کہ ایک عورت ایک دن میں 5 سے زائد مردوں سے متعہ کر لے یا ایک مرد 5 سے سے زائد عورتوں سے متعہ کے لے ۔۔۔ اس کو ہر گز عفت داری نہیں کہ سکتے اور نہ ہی ایسی عورت و مرد عفیفہ ہوسکتے ہیں ۔ٹھیکہ پر شرمگاھ دینا کسی بھی طرح عفت داری نہیں ہے استبصار میں طوسی نے اسے کرائی پر لی گئے شرمگاھ کہا ہے اور پھر کافی میں اسے مستاجرہ یعنی ٹھیکہ پر لی گئی شرمگاھ کہا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عفیفہ شیعہ مذہب میں بھی نہیں ہے اور پھر محصنین کے مطابق عفیفہ تب کہلائے گی جب اسے بیوی مانا جائے جب کہ خود شیعہ مذہب میں اسے بیوی نہیں کہا گیا۔
اور پھر خود شیعہ مذہب میں متعہ عفت باقی نہیں رکتا چناچہ جب امام جعفر سے پوچھا گیا کہ باکرہ کے ساتھ متعہ کر لین تو انہوں نے کہا کہ
أحمد بن يحيى عن يعقوب بن يزيد عن ابن أبي عمير عن حفص بن البختري عن أبي عبد الله عليه السلام في الرجل يتزوج البكر متعة قال:يكره للعيب على أهلها.
یعنی کہ باکرہ سے متعہ کرنا اس کے خاندان کے لئے بدنامی کا باعث ہے ۔ چناچہ معلوم ہوا کہ متعہ سے عورت عفت دار نہیں رہتی ،اور پھر طوسی نے امام جعفر صادق کا یہ قول نقل کیا ہے کہ مومنہ سے متعہ نہ کرو اس میں اس کی تذلیل ہے ، قال: لا تمتع بالمؤمنة فتذلها پھر طوسی نے کہا کہ اس سے مراد اہل بیت کی عورتیں ہو سکتی ہیں ۔ بھرحا ل کہنے کا مقصد یہ ہے کہ متعہ عفت داری ہر گز نہیں ہے۔ اور پھر خود شیعہ مذہب مین سب سے بڑی نیکی بدن کی عفت بچانا ہے ملاحضہ ہو
کافی میں باب عفت ہے اس میں کچھ روایات ہیں اس میں سے ایک پیش کر دیتا ہوں
محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد، عن محمد بن إسماعيل، عن حنان بن سدير، عن أبيه قال: قال أبو جعفر (عليه السلام): إن أفضل العبادة عفة البطن والفرج ۔

ینعی سب بڑی عبادت اپنی شرمگاھ کی حفاظت کرنا ہے نہ کہ ٹھیکہ پر یا کرایہ پر دینا ۔ اس کے علاوہ اور پھر امام باقر نے ممتوعہ عورت کو زوجہ نہیں کہا ملاحضہ ہو
امام باقر سے جس کے آخری الفاظ یہ ہیں : امام باقر نے فرمایا یہ ممتوعہ عورت زوجہ منکوحہ نہیں بلکہ یہ اجرت پر خریدی گئی ہے کہ اس سے جماع کیا جائے (فروع کافی(
متعہ کا مقصد ہی صرف جنسی لذت پوری کرنا ہے تو اولاد کہاں سے آسکتی ہے لیکن متعہ میراث ہے نہیں تو بلفرض اگر اولاد ہو بھی جائے تو وہ اس مرد کی وارث نہیں ہوسکتی۔۔۔۔ متعہ شیعہ کی تو محبوب چیز ہے تو پھر شیعہ لوگ اسے علانیہ کیوں نہیں کرتے کیا شرم آتی ہے یا عفت داری داغدار ہوتی ہے یا پھر کیا شیعہ بتا سکتے ہیں کہ کتنے شیعہ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم متعہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ جو اپنے متعہ والے باپ کے وارث بنے ہیں۔ ایک مثال۔ کیوں کہ شیعہ کے مذہب کے مطابق جو متعہ نہیں کرتا قیامت میں ناککٹا اٹھے گا
اور نہ ہی متعہ میں شرعی اصولوں کے پاسداری ممکن ہے کیوں کہ متعہ اور زنا میں صرف ایک فرق ہے کہ اسے متعہ کہتے ہیں اسے زنا کہتے ہیں باقی کوئی فرق نہیں۔۔۔۔

متعہ اگر بقول شیعہ کے نکاح ہے تو اس میں نکاح والی شرعی شرطیں لازمن ہونے چاہئے کم سے کم کچھ تو ہونے چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔ جیسے والی کی مرضی ، گواہوں کی لازمن موجودگی ، میراث وغیرہ لیکن ان میں سے ایک بھی متعہ کے لئے ضروری نہیں اور کم سے کم قرآن کریم نے نکاح کی اس کے کچھ احکام ہی بیان کر دئے ہوتے کم سے کم یہ اس میں طلاق خود ہوتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے

متعہ اور زنا کا موازنہ کر لیں
زنا ۔۔۔۔
اس میں زانیہ کو اجرت دی جاتی ہے اس کا کوئی تعین نہیں ہے ، کچھ وقت مقرر کر لیتے ہیں ، زنا میں تنھائی ضروری ہے ۔ زنا میں عورتوں کی قید نہیں ہے جتنی عورتوں سے چاہو زنا کر لو ۔زنا صرف جنسی لذت کے لئے ہوتا ہے ۔زنا میں جب مقرر وقت کے بعد علیھدگی ہو تو کوئی طلاق نہیں زانیہ وارث نہیں ہوسکتی ، نہ ہی نان نفقہ زانی کے زمہ ہے ۔۔
اب آپ یہاں لفظ زنا نکال دیں اور متعہ ڈال دیں بلکل ایک ہی چیز ہے فرق یہ ہے کہ اسے زنا کہا جائے گا اسے متعہ
بلکل یہی چیزیں متعہ میں پائی جاتی ہیں اس میں گواہوں کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔ تو یہ بات بلکل واضع ہے کہ متعہ ایک   اسی چیز ہے جو سفاح سے ہے اور قرآن نے لفظ غیر مسافحین سے اس کی ممانعت کردی ہے۔ 
اور متعہ کی حرمت احادیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن عورتوں سے متعہ اور پالتو گدھوں کے گوشت کو حرام کر دیا۔
صحيح بخاری، حديث نمبر: 4216
صحيح مسلم، حديث نمبر: 1407استیصار جلد 3 ص 142 ، فروغ کافی ص 192 جلد 2، اور تہذ یب الاحکام جلد 2 ص ا86
کیسی صاف روایت ھے روایت بھی ایسی کے جناب علی رض جو اپنے فہم سے فتوی نھی دیتے بلکہ پیغمبر اسلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے ہیں -


کیسی صریح ہدایت ھے اور کیسا صاف ارشاد ھے پر اصحاب شیعہ کی کتنی جرت ھے کے اس روایت علی رض کی نسبت یوں گوہر افشانی کرتے ہیں کے یہ روایت جناب علی رض کی فرف سے تقیہ پر محلول ھے چنانچہ صاحب استفسارمحدث شیعہ کے اپنے الفاظ اسی روایت کے متعلق یہ ھیں-

''یہ روایت حضرت علی رض کی طرف سے تقیہ پر محلول ھے العامتھ ص 142
مطلب یہ حضرت علی رض نے عوام اھل سنت سے ڈر کر یہ روایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر تھوپ دی معاذ اللہ -
بھلا آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تقیہ کرنے کی کیا ضرورت تھی اور کن لوگوں سے تقیہ کرنا تھا اور اگر آپ تقیہ ھی کرتے تھے تو باقی ذخیرہ دین کا کیا اعتبار کے وہ تقیہ تھا یا حقیقت -ممکن اس حدیث کو تقیہ پر محلول کرنے والے گدھوں کا گوشت بھی کھاتے ھوں -کیونکہ ان کے متعلق اور تقیہ کے متعلق ایک ھی اعلان ھے- اگر وہ حقیقت ھے پر مبنی ھے تو متعہ حرام ٹھہرا اور اگر تقیہ پر محمول ھے تو گدھے بھی حلال ھو گئے-


حرمت متعہ کتب شیعہ سے 
جس طرح اہل سنت سے متعہ کی حرمت ثابت ھے ایسے ھی ائمہ اھل بیت سے بھی 

اس کی حرمت ثابت ھے چنانچہ ملاحظہ ھو 
مفضل کہتا ھے کے میں نے امام صادق رض کے متعلق فرماتے ھوے سنا :

'' متعہ چھوڑ دو کیا تمھیں شرم نھی آ تی کے کوئی شخص عورت کی شرم گاہ دیکھے اور اس کا زکر اپنے بھائیوں اور احباب سے جا کرے ''' 
فروغ کافی جلد 2 ص 192

اس راویت مین نا صرف متعہ کو حرام کیا گیا بلکہ اس بے حیائی کا نہایت ھی محتصر مگر معنی خیز الفاظ میں مرقع کینچا گیا ھے اس سے ثابت ھو ا متعہ فعل بے حیائی ھے اس لیے شیعوں کو اس فعل کا ارتکاب کر کے بے حیا نھی بننا چاھیے -


حضرت ابن عباس رض اور حرمت متعہ 
شیعہ حضرات متعہ کے جواز میں حضرت عبداللہ بن عباس رض کا نام بڑی شدومد سے پیش کرتے ھیں لہذا ھم چاھتے ھیں کے اھل سنت اور شیعہ ھر دو کی کتب میں حضرت عبداللہ بن عباس رض کے بارے میں جو کچھ مروی ھے اس کو بھی پیش کریں تاکہ شیعہ کی خوش فہمی دور ھو جاے -چنانچہ لاحظہ ھو امام ترمذی نے ترمذی شریف میں 

''باب ماجا فی نکاح متعہ ''

کا باب قائم کیا ھے اور دو احادیث نقل کی ھیں ایک تو حضرت علی رض والی جو پہلے گزر چکی ھے اور دوسری حدیث 

'' حضرت ابن عباس رض سے مروی ھے اگر متعہ جائز ھوتا تو امام حسن رض نکاح و طلاق کے جگھڑیے میں نا پڑتے -
حضرت امام حسن رض بااعتراف صاحب مجلس المومنین بہت سے نکاح اور طلاق دیتے تھے-

غور کیجے اگر متعہ حلال ھوتا تو حسن رض متعہ سے کبھی کنارہ کشی نا کرتے بلکہ کل ائمہ کرام نے کبھی بھی اپنا دامن عصمت متعہ جیسے فعل سے آلودہ نہ کیا -


البتہ اتنی بات ضرور ھے کے حضرت ابن عباس رض کچھ عرصیہ تک متعہ کو اضطرار اور شدید ضرورت کی حالت میں جائز سمجھتے رہے پھر حضرت علی رض کے سمجھانے سے رجوع فرمایا - جیسا کے ترمذی کی مزکورہ روایت سے معلوم ھوا
حضرت علی رض کے سمجھانے والی روایت یہ ھے 

'' حضرت علی رض نے حضرت ابن عباس رض کے متعلق سنا کے وہ متعہ کے متعلق کچھ نرم فتوی دیتے ھیں تو آپ نے فرمایا اے ابن عباس رض ایسی بات چھوڑ دو کیونکہ خیبر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ اور پالتو گدھوں کا گوشت کی ممانعت فرما دی تھی- 

یہی روایت تحفہ المومنین اور کتاب المحاسن البرقی جو شیعہ کی معتبر کتب ہیں جناب امیر سے نقل کی گئی ھے پس جب یہ حدیث متفق علیھ فریقین ھے تو اس کی صحت سے انکار کی گجائش نھی رھتی حدیث کے الفاط یہ ہین -

جناب امیر نے ابن عباس رض کو کہا کے تحقیق تو مرد عیاش ھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ سے منع فرما دیا تھا ''

حضرت عبداللہ ابن ذبیر رض کی بھی اس بابت حضرت ابن عباس رض سے بحث و تکرار موجود ھے الغرض حضرت ابن عباس رض نے حضرت ابن ذبیر رض اور حضرت علی رض اور دیگر علماء سے بحث کے بعد اپنے سابق فتوی سے رجوع کر لیا تھا اور متعہ کا منسوخ ھونا ان پر ظاہر ھو گیا -

امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر مین حضرت ابن عباس رض کے متعلق فرماتے ہیں کے انہوں نے موت کے وقت کہا تھا 

'' اے اللہ میں اپنے متعہ کی حلت کے قول سے توبہ کرتا ھوں -
مندرجہ زیل روایت سے ثابت ھوتا ھے کے بعد مین حضرت عبداللہ بن عباس رض نے متعہ کی حلت سے رجوع کرلیا تھا چنانچہ ابو اسحاق مولی بن ہاشم کہتے ہیں کے-

'' ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عباس رض سے اپنا واقعہ بیان کیا کہنے لگا کے میں ایک مرتبہ سفر میں تھا میرے ساتھ میری لونڈی تھی میں نے وہ لونڈی اپنے رفقا وسفر کے لیے مباح کر دی وہ اس سے متعہ کرتے رہی تو حضرت عبداللہ بن عباس رض نے فرمایا یہ تو بلکل ذنا ھے 
حضرت عبداللہ بن عباس رض کے اس فتوی سے ثابت ھو گیا کے بعد میں وہ متعہ کو ذنا سمجھنےلگے تھے -

حضرت عمر رض اور حرمت متعہ

شیعہ حضرات بغض وعناد کی بنا پر حرمت متعہ کی نسبت حضرت فاروق اعظم رض کی طرف کرتے ھیں وہ کہتے ھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حلال کیا تھا لیکن حضرت عمر رض نے اس کو حرام کر دیا حالانکہ یہ الزام سرے سے غلط ھے کیونکہ متعہ کی حرمت خود قرآن پاک کی نصوص اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صیح احادیث سے ثابت ھے جن کا زکر پہلے ھو چکا - حضرت عمر رض اس حکم کے موجد نہی تھے بلکہ صرف اسے نافذ شائع اور مشتہر کرنے والے تھے چونکہ یہ حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانے مین دیا تھا اور عام لوگوں تک نا پہنچا تھا اس لیے حضرت عمر رض نے اس کی عام اشاعت کی اور بذریعہ قانون اس کو نافذ کیا -

ابن ماجہ میں صیح سند کے ساتھ حضرت عمر رض کے الفاظ منقعول ہیں -

حضرت فاروق اعظم رض ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن کے لیے متعہ مباح کیا پھر بعد ازاں خود ہی آپ نے اس کو حرام قرار دے دیا واللہ جس نے شادی شدہ ہو کر متعہ کیا تو میں اسے پتھروں سے رجم کر دوں گا -


کیونکہ متعہ کی حرمت صیح حدیث سے ثابت ھے لہہذا حضرت عمر رض پر حرمت متعہ کا الزام لغو مردود اور باطل ھے 

صیح بخاری شریف میں ہے 

امام بخاری رح فرماتے ھیں کے حضرت علی رض نے اس بات کی وضاحت کی کے متعہ نسخ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ھے لہذا حضرت عمر رض پر حرمت کا الزام بے بنیاد ھے 
صیح بخاری شریف ص 767 جلد 2

حضرت عبداللہ بن زبیر رض پر متعہ سے پیدا ھونے کا الزام

شیعوں نے یہ بھی ہرزہ سرائ کی ھے کے معاذاللہ حضرت عبداللہ بن زبیر رض متعہ سے پیدا ھوے حالانکہ یہ دعوی سراسر لغو کزب و افترا باطل و مردود و بہتان ھے نیز صحابہ سے انتہائ بغض وعناد اور کتب تاریخ سے نا علم ھونے کی بین دلیل ھے اس لغو الزام کی تردید کرنے کی ضرورت تو نا تھی تاہم تاریخی طور پر ھم اس کو ثابت کرتے ھیں کے حضرت عبداللہ رض حواری رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زبیر رض کے فرزند ارجمند اور حضرت اسما رض کے لخت جگر ( شیعہ مومنینن کی طرح ) متعہ کی پیداوار نھی بلکہ صیح اور جائز نکاح سے پیدا ھوے ھین -

چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی رح حضرت اسما ء رض کے حالات کے ضمن میں لکھتے ھیں 

حضرت اسما ء رض مکہ میں ابتدا میں ھی حلقہ بگوش اسلام ھو گئ تھیں اور حضرت زبیر رض نے ان سے نکاح کیا تھا اور جب حضرت اسماء رض نے مدنیتہ الرسول کی 
ہجرت کی تو اس وقت حاملہ تھیں چنانچہ جب مدینہ کے قریب پہنچی تو وہاں حضرت عبداللہ رض پیدا ھوے - 
اصابہ جلد 4 ص 335
ابن سعد حضرت اسماء رض کے تزکرہ میں لکھتے ہیں 

حضرت اسماء رض سے حضرت زبیر رض بن عوام نے نکاح کیا ان سے حضرت عبداللہ رض پیدا ھوے -
تقریب التہذیب جلد 2 ص 589

امام المحدثین امیرالمومینین فی الحدیث امام بخاری رح عبداللہ بن ذبیر رض کے حالات میں لکھتے ھیں -

حضرت اسماء نے جب ہجرت مدینہ کی تو اس وقت حمل کی حالت مین تھین فرماتی ھین کے جب مقام قباء پہنچی تو عبداللہ پیدا ھوے اسے گود میں لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کو اپنے آ غوش مبارک میں لے لیا ایک کھجور اپنے دہن مبارک میں ڈال کر چبائی اور پھر اسے اپنے لوابدہن کے ساتھ ملا کر ننھے عبداللہ کے منہ مین ڈال دیا پہلے چیز جو عبداللہ رض کے پیٹ میں گئ وہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن تھا آپ نے دو مرتبہ گڑتی دی اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کے لیے دعاے خیرو برکت مانگی ہجرت مدینہ کے بعد سب سے پہلے مولود فی الاسلام حضرت عبداللہ بن ذبیر رض تھے-

حافط ابن کثیر البدایہ و النہایہ ص 34 جلد 5 پر فرماتے ھین جب حضرت اسماء رض عمر رسیدہ ھو گیئں تو حضرت زبیر رض نے انھیں طلاق دے دی تھی-
الغرض اس سے معلوم ھو ا کے حضرت اسماء کا حضرت زیبر سے نکاح ھو تھا کیونکہ طلاق تسنیخ نکاح کے لوازمات میں سے ھے زن متموعہ کی علیحدگی کے لیے طلاق کی ضرورت ھی نھی کیونکہ انقطاع میعاد ھی طلاق سمجھی جاتی ھے -

حضرت اسماء رض کی دیگر اولاد 

حضرت زبیر رض سے حضرت اسماء رض کو اللہ نے 5 بیٹے اور 3 بیٹاں عطا کیں کی تھیں مگر تعجب کی بات یہ ھے کے شیعہ رافضیوں نے نے صرف حضرت عبداللہ پر متعہ سے اولاد ھونے کا بے بنیاد الزام لگایا -

شیعہ کے گھر کی شہادت 
علامہ حلی شیعہ فرماتے ھیں -
شیعہ کے نزدیک متعہ جائز ھے اور ائمہ اربعہ اس کو حرام سمجھتے ھیں مزکورہ
علامہ حلی کی عبارت سے ثابت ھوا کے تمام اھل سنت حرمت متعہ پر متفق ھیں ۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئ گھر کے چراغ سے
لہذا متعہ حرام اور ناجائز  فعل ہے اس  سے بچنا لازم اور ضروری ہے۔
                                                        واللہ اعلم باالصواب
مفتی عامر عباسی۔
مدرس جامعہ بنوریہ راولپنڈی۔



Related Posts:

  • حر مت متعہ کیا قرآن کریم نے متعہ کی اجازت دی ہے متعہ کی تعریف  متعہ کی لغوی معنی ہیں فائدہ اٹھانے کی ، عرب میں جہالیت کے زمانے میں جب لوگ اپنے شہر سے باہر جاتے تھے تو وہاں اگر ان کا قیام بہت زیادہ ہوتا تھا تو وہ لوگ ع… Read More

1 comment:

  1. Jazaka UK Allah ho khair. Linda Baad Mufti sahib. Allah Pak Ilam was balaghat me barkat Ata farmay

    ReplyDelete

Latest

tadreesulislam. Powered by Blogger.

nwees

News & Updates : Congratulations To Those Students Who Have Passed Their Exams And Best Wish For Those Who Have Relegated Carry On Your efforts.*** Students Are Requested To Prepare Themselves For Next Exams.***Students Are Requested To Act Upon What They Have Learnt In TADREES-UL-ISLAM institute And Try To Convince Your Friends And Rerlatives To Join TADREES-UL-ISLAM institute For Learning.***Admissions Are Open For New Commers. *** By Acting Upon Sayings Of Allah Almighty In Quran Peace Can Be Established In Whole World.

videos,

Follow on facebook