اصول فقہ،
از:مفتی عامر عباسی،مدرس جامعہ بنوریہ للتعلیمات راولپنڈی۔
( 1)"ما ثبت لعذر يزول بزواله"
جو چیز کسی عذر کی وجہ سے ثابت ہو تو جیسے ہی عذر ختم ہو اس چیز کا جائز ہونا بھی ختم ہو جاتا ہے۔
مثال:جیسےجان بچانےکے لیے بھوکے ہونے کی حالت میں حرام چیز اس قدر حلال ہوتی ہے جس سے جان بچ جاۓ۔
ڈاکٹر بقدر ضرورت مرد کے ستر کو دیکھ سکتا ہے۔
ذخم پر پٹی باندھی جاۓ تو کچھ نہ کچھ تندرست حصہ پر بھی پٹی آتی ہے تو تندرست حصہ پر بھی پٹی پر مسح جائز ہو جاتا ہے۔
پانی نہ ملنے کی وجہ سے تیمم کرجا جائز ہے لیکن اگر تیمم کے بعد نماز سے پہلے پانی مل گیا تو تیمم ختم ہو جاے گا کیونکہ عذر ختم ہو گیا۔
(2)"الرضا بالشيء رضا بما يتولد منه"
کسی چیزپر راضی ہونا اس چیز سے جو جو چیزیں پیدا ہوں ان سب پر راضی ہونا ہوتا ہے۔
مثال:اگر خاوند اور بیوی ایکدوسرے کے عیب پر راضی ہو گۓ اور پھر وہ عیب بڑھ گیا تو تب بھی راضی ہی ہونا پڑے گا۔
عورت نے رخصتی کے بعد کہا کہ اس سے نکاح کی اجازت نہیں لی گئی تھی تو یہ اس کی بات قبول نہیں کی جاۓ گی کیونکہ جب وہ رخصتی پر رضامند ہوئی تو اجازت پر بھی رضامند تھی۔
مقروض نے رہن پر کوئی چیز قرض خواہ کو دی اور استعمال کی اجازت دی تو اگر استعمال پر اس چیز کا نقصان ہوا تو قرض خواہ اس کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔
اگر احرام سے پہلے خوشبو لگائی جو پھر احرام باندھنے کے بعد پھیل گئی تو اس کا حرج نہیں ہوگا۔
(3)" يتَحَمَّل الضَّرَر الْخَاص لدفع الضَّرَر الْعَام "
جہاں عام نقصان کا خطرہ ہو وہاں خاص نقصان کو برداشت کیا جاتا ہے۔
مثال:ایک دیوار جو گلی/سڑک کے ساتھ ہے اور گرنے والی ہے تو مالک پر واجب ہے کہ دیوار کو گرا دے۔دیوار گرانے سے ایک خاص ادمی مالک کا نقصان ہوگا جبکہ اگر نہ گرائی تو عام عوام کے نقصان کا خطرہ ہے۔
راہ زن کو قتل کیا جاتا ہے کونکہ وہ عام نقصان کا باعث ہوتا ہے۔
بغیر اجازت کسی کی فصل میں سے گزر کر کسی نہر یا دریا کے پانی کو بند کرنا جو عام نقصان کا سبب بن سکتا ہو۔
( 4)" الضَّرَر لَا يُزال بِمثلِهِ "
تکلیف/ضرر کو اس جتنے ضرر کے ساتھ ختم نہیں کیا جا سکتا۔
مثال:جیسے کسی بندے کی بھوک سے جان جا رہی ہو اور اس کے پاس کھانے کو زہر ہے تو زہر کھانا جازئز نہیں کیونکہ نقصان ہے زہر سے بھی بندہ مر جاۓ گا
یا جو بندہ بھوک سے مر رہا ہو تو کسی انسان کا گوشت کھا کر خود کو زندہ رکھنا جائز نہیں کیونکہ دونوں حالتوں میں جان کاضیاع ہے۔
اگر بچہ کی ولادت نہیں ہو رہی اور بچہ یا ماں دونوں میں سے کسی ایک کا مرنا یقینی ہو تو بچہ کو بچانے کے لیے ماں کو نہیں مرنے دیا جاۓ دونوں میں نقصان برابر ہے۔
حالت اکراہ( اگر کقئی مجبور کرے کہ کسی کو قتل کر دو وگرنہ آپ کو قتل کر دیا جاۓ گا تو بندہ کےلیے دوسرے کو قتل کرنا جائز نہیں ہوتا
(5)" الضَّرَر الأشد يزَال بِالضَّرَرِ الأخف "
زیادہ نقصان کو تھوڑے نقصان کے ساتھ ختم کرنا صحیح ہے۔
مثال:اگر کوئی مال دار ہے اور اس کا باپ یا بیٹا غریب ہے تو اس مال دار کے مال سے اس کے باپ ماں بیٹا، بیٹی پر اس کے مال سے خرچ کرنا جائز ہے۔
اگر کسی کا نفقہ کسی دوسرے پر واجب ہو اور وہ ادائگی نہ کرتا ہو تو اس کو مار پیٹ یا جیل میں ڈالنا جائز ہے۔
اگر مریض بڑی بیماری سے ایسی دوا سے ٹھیک ہوکہ اس سے چھوٹی بیماری لگ جاۓ تو ایسا دوا کااستعمال جائز ہے۔
(6)" إِذا بَطل الشَّيْء بَطل مَا فِي ضمنه "
جب ایک چیز غلط ہو تو جو کچھ اس کے ماتحت ہوگا وہ بھی غلط ہوگا۔
مثال:اگر کسی نے کوئی چیز غصب کی اور بیچ دی پھر اس خریدار نے بھی بیچ دی تو چونکہ پہلا بیچنا ہی درست نہ تھا۔اس لیے سب کا بیچنا درست نہیں۔
اگر اپنی بیوی سے ہی نکاح کر لیا تو مہر واجب نہیں ہوگا کیونکہ وہ پہلے سے ہی بیوی تھی دوسرا نکاح درست نہیں تھا۔
نماز مین ایک فرض غلط ہوگیا جیسے پہلی رکعت کا قیام نہیں کیا یا رکوع نہیں کیا تو باقی جو فرض ہیں وہ بھی باطل ہوگۓ نماز دوبارہ پڑھنا ہو گی۔
(7)"الخطأ لا يستدام ولكن يرجع عنه"
خطا ہوجاۓ تو اس کو قائم نہیں رکھا جاتا بلکہ اس کو چھوڑا جاتا ہے۔
مثال:اگر جج نے کوئی فیصلہ دیا پھر اس کو ظاہر ہوا کہ اس نے غلطی کی تو اس سے رجوع کرنا لازم ہے۔
کوئی بھی کام ہو جب ظاہر ہو کہ یہ غلط ہے تو اس کو چھوڑ دینا لازم ہے۔
کسی ایسی عورت سے نکاح ہو گیا جس سے نکاح جائز نہ تھا تو اللہ سے توبہ کرے۔اور یہ ازدواجی تعلقات ختم کرے گا۔
(8)" الْعبْرَة للْغَالِب الشَّائِع لَا للنادر "
جو چیز غالب ہو اور عام عمل ہو اس کی مثال دی جاتی ہےاور وہ مراد لیا جاتا ہے اور جو کام کبھی ہو بہت کم ہو اس سے مراد نہیں لیا جاتا۔
مثال:امام ،مؤذن کی تنخواہ مقرر ہونا اور دینا عام رواج ہے لھذا اس یر عمل کیا جاۓ گا۔
آج کل جج بے چارے بک بھی جاتے ہیں اور مجبور ہوتے ہیں لھذا جج بغیر گواہی کے فیصلہ نہیں کر سکتا اگر چہ وہ کام اس نے خود دیکھا ہو۔
چونکہ غالب یہ ہےکہ خاوند بیوی کو دوسرے ملک لے جاتا ہے اور تنگ کرتا ہے تو اب خاوند بیوی کو دوسرے ملک لے جانے پر مجبور نہیں کرسکتا۔
بجلی کی تار گلی میں ننگی لٹکی ہو تو غالب یہی ہوتا ہے کہ کرنٹ لگ جاۓ گا تو لھذا اس کو ہٹانا ضروری ہوتا ہے۔
(9)"ذو السببين مقدم في الاستحقاق على ذي السبب الواحد"
جس چیز میں کوئی دو سبب کی وجہ سے حق رکھتا ہو تو وہ ایک سبب کی نسبت زیادہ حقدار ہے۔
مثال:ایک بندہ کے دو بھائی ہیں ایک بھائی ماں اور باپ دونوں سے ہے،اور دوسرا بھائی صرف باپ کی طرف سے بھائی ہے یعنی اس کی ماں کوئی اور ہے تو اس بندہ کی وراثت اس کو ملے گی جو ماں باپ دونوں طرف سے بھائی ہے۔
حقیقی بھائی ،سوتیلے بھئی کی نسبت بہن کے نکاح کرانے کا زیادہ حقدار ہے۔
زکاۃ اس کو دینا زیادہ بہتر ہے جو رشتہ دار بھی ہو اور غریب ہو۔کیونکہ اس میں دو حق ہیں ۔
(10)"الفرض لا يؤخذ عليه عوض"
جو چیز کسی پر فرض ہو اس پر اجرت نہیں لے سکتا۔
مثال:مسلم جو اللہ کے راستہ میں جہاد کر رہا ہو،اس پر اجرت نہیں لے سکتا۔
جب امین نے امانت واپس کرنی ہو تو یہ اس پر واجب ہے لھذا اس پر اجرت نہیں لے سکتا۔
مقروض جب قرض واپس کرے تو قرض واپس کرنے پر جو خرچہ آۓ اس پر مقروض اجرت حاصل نہیں کرسکتا۔
جس بندہ کا مال گم ہوگیا اس نے اعلان کیا کہ جو مجھے یہ مال دے گا میں اس کو اتنی اجرت دوں ،جب کسی نے اس کو مال لوٹا دیا تو اس پر اجرت لینا جائز نہیں کیونکہ یہ مال مالک تک لوٹانا اس پر واجب تھا۔
(11)" الِاضْطِرَار لَا يبطل حق الْغَيْر "
مجبوری (اضطرار) کی حالت میں جو چیز حلال ہوتی ہے اس میں دوسرے کا حق بر قرار رہتا ہے۔
مثال:ایک بندہ بھوک سے مر رہا تھا اس نے بغیر اجازت کسی کی چیز کھالی تو جس کی چیز کھائی ہے اس سے معاف کروانا یا اتنا مال واپس کرنا ضروری ہے۔
ایک عورت اجرت لیتی تھی اورکسی کے بچے کو دودھ پلاتی،پھر عورت نے دودھ پلانا چھوڑ دیا اور اب بچہ کسی اور کا دودھ پیتا نہیں اور نہ ہی کھانا کھا سکتا ہے، اس حالت میں اس عورت کو مجبور کیا جاۓ گا کہ بچے کو دودھ پلاۓ اور اس مجبوری میں عورت کو اجرت جو اس کا حق ہے وہ بھی دیا جاۓ گا۔کیونکہ مجبوری میں بچہ کاحق ثابت ہو گیا اور عورت کی اجرت اس مجبوری کی وجہ سے نہیں چھوڑی جاۓ گی۔
زمین اجارہ پر لی،اجارہ کی مدت مثلا ایک سال پوری ہوگئی اور اب فصل کھڑی ہے ،اس کی کٹائی نہیں ہوسکتی،تو مجبوری ہے کہ ایک سال سے زیادہ مدت تک وہ زمین کسان کے پاس اجارہ پر رکھی جاۓ گی،اور وہ اس کا اتنا حساب سے اجارہ بھی ادا کرے گا۔
(12)"الأَصْل إِضَافَة الْحَادِث إِلَى أقرب أوقاته "
کسی بھی واقعہ میں جب وقت کا جھگڑا ہو تو اس کو قریبی مدت سمجھا جاۓ گا۔
مثال: خاوند نے بیوی کو طلاق دی اور پھر جلد ہی خاوند بیمار ہوا اور مر گیا۔اس کے مرنےکے بعد عورت نے دعوی کیا کہ اس کو طلاق حالت مرض میں دی تھی اس لیے وہ وراثت لے گی جبکہ باقی ورثہ کہہ رہے کہ نہیں طلاق خاوند نے بیمار ہونے سے پہلے دی تھی تو اب عورت مدت قریب کا یعنی مرض کی طلاق کا ذکر کر رہی لھذا اس کی بات معتبر ہوگی۔
بائع نے چیز بیچی اور مشتری کو اختیار دیا کہ تین دن میں واپس کرنا چاہے تو کر سکتا ہے،مشتری نے تیسرے دن چیز واپس کر دی ،بائع کہتا ہے کہ آپ نے تین دن پورے ہونے کے بعد واپس کی جبکہ مشتری کہتا ہے تین دن پورے نہیں ہوۓ تھے ،قریب کی مدت تین دن کے بعد کی ہے لھذا بائع کی بات لی جاۓ گی۔
(13)" مَا حرم فعله حرم طلبه "
جو فعل حرام ہو اس کو طلب کرنا بھی حرام ہوتا ہے۔
مثال:جیسے کسی کو دھوکہ دینا حرام ہے تو اس کی کوشش کرنا حرام ہے۔
چوری کرنا حرام ہے تو اس کی ترغیب دینا کوشش کرنا حرام ہے۔
نبوت کا دعوی کرنا حرام ہے تو اگر کوئی کرتا ہے تواس سے ثبوت مانگنا معجزہ مانگنا بھی حرام ہے۔
(14)" الْأَمر بِالتَّصَرُّفِ فِي ملك الْغَيْر بَاطِل "
کسی دوسرے کی ملکیت میں چیز کو استعمال کا حکم دینا غلط(باطل)ہے۔
مثال:کسی نے دوسرے کو بتایا کہ فلاں نے آپ کو پیغام بھیجا ہے کہ اس کے مال سے آپ تجارت کریں ۔پھر اس نے تجارت کی،اور مال کا منافع کی بجاۓ خسارہ ہو گیا تو یہ تجارت کرنے والا آدمی اس مال کا ضامن ہوگا کیونکہ دوسرے کے مال کو اس کی اجازت کے بغیر استمال کیا۔
اگر کسی نے دسرے کا مال استعمال کیا پھر مالک نے کہا کہ میں نے تو اجازت نہیں دی تھی تو مالک کی بات مانی جاۓ گی۔
کوئی کہتا ہے یہ گاڑی لے جاؤ استعمال کرو جبکہ یہ گاڑی کہنے والی کی ملکیت یا جائز قبضہ نہیں ہے تو استعمال جائز نہیں ہے۔
(15)"الْيَقِين لَا يَزُول بِالشَّكِّ"
یقین کو شک ختم نہیں کر سکتا ۔
مثال:جب بندہ نے وضو کیا پھر اس کو شک ہو گیا کہ وضو ہے یا ٹوٹ گیا تو شک کو نہیں دیکھا جاۓ گا بلکہ یقین کو ہی دیکھا جاۓ گا کہ وضو ہے۔
اگر یہ یقین ہے کہ بندہ بیت الخلاء گیا تھااور اس کا وضو نہیں تھا پھر شک ہو گیا کہ وضو کیا تھا یا نہیں تو اب چونکہ یقین اس پرہے کہ وضو نہیں تھا تو اسی یقین کو لیا جاۓ گا اور کہا جاۓ گا کہ وضو نہیں ہے۔
زید کو پتہ تھا کہ علی نے عثمان کا قرض دینا ہے پھر زید کو شک ہو گیا کہ شاید علی نے ادائیگی کردی لیکن اب شک کو نہیں دیکھا جاۓ گا بلکہ زید یقین پر ہی گواہی دے گا کہ علی نے عثمان کا قرض دینا ہے۔
(16)" الِاجْتِهَاد لَا ينْقض بِمثلِهِ "
اجتہاد (غور وفکر)سےجو ثابت ہو اس کو اسی درجہ کے اجتہاد سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
مثال:کسی معاملہ میں ایک ایسےجج نے فیصلہ دیا جو شافعی تھا اور اس نے اپنےاجتہاد(غور و فکر)سے فیصلہ دیا تھا ،پھر وہی معاملہ حنفی جج کے پاس لایا گیا تو اب حنفی جج شافعی جج کے فیصلہ کےخلاف اپنے اجتہاد سے فیصلہ نہیں دے سکتا۔
ایک بندہ جو مسافر تھا اس کو قبلہ کا پتہ نہیں تھا کوئی بتانے والا بھی نہیں،اس نے خود سوچ و بچار کیا کہ ستارے یا علامات ایسی ہیں اس طرف قبلہ ہے پھر نماز شروع کردی،نماز میں ہی اس کو دوسری طرف ویسے ستارے یا علامات نظر آئیں تو اب وہ قبلہ تبدیل نہیں کر سکتا۔
(17)"الضَّرَر يزَال"
نقصان/تکلیف کو ختم کیا جاۓ گا۔
مثال:اگر بائع نے مشتری کو چیز بیچی اور قیمت کا بازار کی قیمت سےبہت فرق تھا اور مشتری کو معلوم نہ تھا،لھذا اب مشتری کو اختیار دیا جاۓ گا کہ وہ چیز واپس کر سکتا ہے تاکہ اس کا جو نقصان کیا ہے اس کو واپس کیا جاۓ۔
اگر راستہ میں نقصان دہ چیز ہے یا جانور ہے جس سے گزرنا ممکن نہیں تو اس نقصان دہ چیز کو ہٹایا جاۓ گا۔
نماز کے وقت مقرر کیے گۓ اگر مقرر نہ ہوتے تو لوگ جماعت میں شریک نہ ہوتے یا دوسروں کا انتظار کرتے رہتے۔
شفعہ کا حق بھی اسی لیے ہے کہ ممکن ہے جو نیا پڑوسی آۓ وہ تکلیف دینے والا ہو۔
(18)" دَرْء الْمَفَاسِد أولى من جلب الْمصَالح "
فساد/ نقصان کو دور کرنا،فائدہ حاصل کرنے سے بہتر ہے۔
مثال:کوئی بندہ اپنے گھر کی دیوار میں کھڑکی لگاتا ہے جو کہ فائدہ ہے مگر اس سے نقصان یہ کرتا ہے کہ اس کھڑکی گزرنے والی عورتوں پر آوازے کستا ہے تو اس نقصان سے بثنا بہتر ہے لھذا کھڑکی بند کر دی جاۓ۔
گھر کے کچن کا دھواں پڑوسی کی طرف جاتا ہے تو اگرچہ یہ اس گھر والے کا فائدہ ہے مگر پڑوسی کے نقصان کی وجہ سے یہ فائدہ حاصل کرنا مناسب نہیں۔
ہر وہ کام جس مین اتنا فائدہ ہو اور اتنا ہی نقصان ہو تو فائدہ حاصل کرنے کی بجاۓ نقصان کو دور کیا جاۓ گا۔
(19)" يُضَاف الْفِعْل إِلَى الْفَاعِل، لَا إِلَى الْآمِر مَا لم يكن مجبراً "
ہر فعل کا ذمہ دار اس کا کرنے والا ہوگا،حکم دینے والا نہیں ہوگا مگر یہ کہ جب کرنے والا مجبور ہو۔
مثال:ایک آدمی نے دوسرے کوحکم دیا کہ فلاں کا مال ضائع کردو اور دوسرے نے یہ کام کردیا تو تو اب کرنے والا اس نقصان کا ذمہ دار ہوگا۔
اگر ایک نے دوسرے کا کہا کہ فلاں کی دیوار کو توڑدو،پھر اس نےتوڑ دیاتو اب توڑنے والے اس نقصان کا ذمہ دار ہوگا لیکن یہ توڑنے والا نقصان کی تلافی حکم دینے والے سے کرے گا۔
اگر ایک نے دوسرے کو کہا کہ فلاں کا مال چوری کرو اگر نہیں کیا تو تجھے جان سے مار دوں گا تو اب یہ بندہ چوری کرتا ہے یا کسی کی چیز اٹھاتا ہے تو اس کے نقصان کا ذمہ دار نہیں ہوگا ۔
(20)"الظن إذا كان كاذبا فلا أثر له"
ظن/گمان جب جھوٹا ثابت ہوجاۓ تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
مثال:ایک بندہ پر روزے فرض تھے اور وہ ایسا بیمار ہوا کہ اب ٹھیک ہونے کا گمان نہیں،بس یہی گمان ہے کہ مر جاۓ گا تو اس نے ہر روزہ کے بدلے فدیہ ادا کر دیا،پھر وہ بندہ تندرست ہو گیا تو گویا اس کا گمان غلط ثابت ہوا اس لیے اس گمان کا اثر ختم ہو جاۓ گا اور وہ روزوں کی قضا کرے گا۔
بندہ نے نماز پڑھی اس گمان سے کہ اس کا وضو ہے،پھر ظاہر ہوا کہ وضو نہیں تھا تو نماز دوبارہ پڑھے گا۔
کسی نے زکاۃ یا کسی قرض مال سے دیا جس کو وہ اپنا مال سمجھ رہا تھا،بعد میں پتہ چلا کہ یہ اس کا مال نہیں تھا۔تو قرض یا زکاۃ ادا نہیں ہوئی۔
(21)"النسيان عذر في المنهيات دون المأمورات"
بھول جانے کا عذر ان کاموں میں ہوتا ہے جن سے روکا گیاہو،ان کاموں میں نہیں ہوتا جن کا حکم دیا گیا ہو۔
مثال:روزہ دار کو کھانے پینے سے روکا گیا اگر کسی نے بھول کر کھا لیاتو اس کا بھولنے کا عذر قبول ہوگا روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
نماز مین فاتحہ پڑھنےکا حکم دیا گیا اگر کوئی بھول گیا تو تو اس کا عذر قبول نہ ہوگا کیونکہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا جہاں کچھ کرنے کا حکم ہو اس میں عذر قبول نہیں ۔لھذا سجدہ سہو کرے گا یا دوبارہ نماز پڑھے گا۔
اگر کوئی اپنے کجاوہ میں پڑا ہوا پانی بھول گیا تیمم کر کے نماز پڑھی پھر یاد آیا تو اب دوبارہ وضو کر کے نماز پڑھے گا کیونکہ کرنے کاکام تھا اس کو بھول گیا۔
(22)"ما أوجب أعظم الأمرين بخصوصه لا يوجب أهونهما بعمومه"
جہاں دو چیزوں میں سے بڑی چیز لازم ہو جاۓ تو چھوٹی چیز لازم نہیں ہوتی۔
مثال: زنا کرنے والا اگر شادی شدہ (محصن) ہے تو اس کو اب رجم کیا جاۓ گا یعنی پتھروں سے مار دیا جاۓ گا لیکن اس سزا کے ساتھ اس کو چھوٹی سزا( یعنی شہر سے نکالنا)پر عمل نہیں کیا جاۓ گا۔
منی نکنے سے غسل واجب ہوتا ہے تو غسل سے چھوٹا کام وضو ٹوٹنا تو منی نکلنے سے وضو لازم نہیں ہوتا کیونکہ بڑی چیز لازم ہوگئی۔
ایک نے دوسرے کو مارا اس کے ہاتھ کات دیے پھر وہ مظلوم مر گیا تو اب مجرم پر سزا اس مظلوم کے قتل کی ہوگی ،اس کے ہاتھ کاٹنے کی نہ ہوگی۔
(23)"الرشوة أخذ المال ليحق به الباطل أو يبطل الحق"
رشوت یہ ہے کہ مال لے کر باطل کو حق کیا جاۓ یا حق کو باطل کیا جاۓ۔
مثال:ایک بندہ مظلوم ہے وہ اپنی جان چھڑانے کے لیےکسی کو مال دیتا ہے تو یہ رشوت نہیں ہے۔اس صورت میں دوسرے کا مال لینا جائز نہیں ہے۔
کوئی مجرم کو چھرانے کےلیے مال دیتا ہے تو اس میں مال لینا بھی رشوت ہے اور مال دینا بھی رشوت ہے۔
کوئی اپنا حق لینے کے لیے مال دیتا ہے تو اس میں مال دینا تو جائز ہے مگر دوسرے کے لیے لینا جائز نہیں اس کے لیے رشوت ہوگی
(24)"يختار أهون الشّرّين"
دو فساد/شر والے کا،کاموں میں سے تھوڑے نقصان کو اختیار کیاجاۓ گا۔
مثال:ایک بندہ جو حق پر ہے اپنا حق رشوت دینے کے بغیر نہیں لے سکتا اور رشوت دینا ظالم کی مدد ہے تو اب یہ رشوت دے کر جو کہ تھوڑے شر کاکام ہے،اپنا حق لے سکتا ہے۔
ایک مجبور آدمی سود پر قرض لے سکتا ہے تاکہ جو اس کی اہم ضرورت ہے اس کو پورا کیا جاۓ۔
اگر ایک ڈررائیور کے سامنے دو طریقے ہوں کہ ایک بندہ کی جان کا خطرہ ہے لیکن اگر اس کو بچاۓ تو زیادہ جانوں کا خطرہ ہے تو زیادہ کی جانوں کو بچاۓ گا۔
(25)"الساقط لایعود"
جو چیز ساقط (ختم )ہو جاۓ وہ دوبارہ نہیں آتی۔
مثال:بائع نے مشتری کو کوئی چیز نقد بیچی بائع چاہے تو اس چیز کو روک لے جب تک قیمت نہ لے لے لیکن اگر اس نے قیمت لینے سے پہلے ہی چیز مشتری کے حوالہ کر دی تو اب اس نے چیز سے حق ختم کر لیا۔ اب اس چیز کو دوبارہ قبضہ میں نہیں لی سکتا۔
کسی سے قرض لینا تھا اس کو معاف کر دیا تو اب یہ قرض لینے کا عمل ختم ہو گیا۔ اب اس کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔
عدالت میں اپنے کسی حق کو چھوڑ دیا تو پھر اس حق کا مطالبہ نہیں ہو سکتا۔
(26)"حقوق العبادتتوجہ علی الصبیان والمجانین عند تقرر السبب کما تتوجہ علی البالغین"
حقوق العباد جب کوئی سبب پایا جاۓ تو بچوں اور مجنون پر بھی لازم آتا ہے جیسے بڑوں پر لازم آتا ہے۔
مثال: ایک بچے نے یا پاگل نے کسی کو قتل کر دیا تو اب ان پر قصاص تو نہیں ہوگا مگر دیت ان کے خاندان(عاقلہ) پر لازم آۓ گی۔ یا پھر اس بچے پر دیت لازم آۓ گی جب وہ بالغ ہوگا۔ بچے کی وجہ سے قتل کو چھوڑا نہیں جاۓ گا۔
اگر کسی انسان کے جانور ( بھینس ،گاۓ ) نے کسی کا نقصان کردیا تو مالک سے اس کا نقصان پورا کروایا جاۓ گا۔
بچے نے کسی کا نقصان کر دیا تو بڑوں سے اس کے نقصان کو پورا کیا جاۓ گا۔
(27)"لا مساغ للاجتھاد فی مورد النص"
جہاں پر نص(قرآن و سنت) آجاۓ وہاں اجتہاد کی گنجائش نہیں ہوتی۔
مثال:سود کا حرام ہونا قرآن سے ثابت ہے لہذا اس کےلیے اجتہاد کر کے کوئی گنجائش نہیں بنائی جاۓ گی۔
قربانی کا وجوب نص سے ثابت ہے اس لیے عقل سے سوچ کر قربانی کی بجاۓ غریب کا تعاون کرنا درست نہیں۔
چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے لہذا اس سزا میں تبدیلی جائز نہیں۔
(28)"قدر مالایستطاع الامتناع منہ یعتبر عفوا"
اتنی مقدار جس سے بچنا ممکن نہ ہو ،وہ معاف ہوتا ہے۔
مثال:کپڑے پر خون لگا تھا پھر دھو دیا مگر نشان / دھبہ باقی رہا تو یہ خون کا نشان معاف ہے۔
کسی کو ڈر ہو کہ غسل خانہ میں پیشاب کے انتہائی باریک چھینٹے پڑتے ہیں۔ تو اب اس قدر کو معاف تصور کیا جاۓ گا۔ کیونکہ اس سے بچنا ممکن نہیں۔
ہم جو گاڑی چلاتے ہیں۔ یقینا لوگوں کوتھوڑی بہت اس سے پریشانی ہوتی ہے۔ کبھی کسی کو فضول ہارن دیا جاتا ہے تو یہ بھی معاف ہے کیونکہ اس سے بچنا ممکن نہیں۔
(29)"الشروع ملزم"
عبادت میں کوئی چیز شروع کرنے سے لازم ہوجاتی ہے۔
مثال:کسی نے نفل نماز شروع کی تو اب اس کو باطل نہیں کرے گا بلکہ اس کو ادا کرے گا اگر اس کو باطل کیا تو اب قضاء اس کے ذمہ لازم ہوگئی۔
نفلی قربانی کا جانور لینے سے قربانی لازم ہو جاۓ گی۔
کسی مسلم کی رہنمائی ، تعاون ،جائز دوستی ( حقوق العباد) کو جب شروع کیا تو اس کو پورا کیا جاۓ گا۔ اس کو دھوکہ یا اس کے اعتماد کی خلاف ورزی نہیں کی جاۓ گی۔
(30)"الطاعات التی لا یجوز اداؤھا من الکافر لا یجوز الاستئجار علیھا"
ایسی طاعات/ عبادات جن کو کافر ادا نہیں کرسکتا ،اس پر اجرت لینا مسلم کے لیے جائز نہیں ہے۔
مثال:اذان دینا کافر کے لیے جائز نہیں ہے لہذا مسلم بھی اذان دینے پر اجرت نہیں لے سکتا۔
کسی بندہ کو اجرت دینا کہ یہ تین ماہ کی آپ کو تنخواہ دیتے ہیں فلاں کی طرف سے حج کر آؤ تو یہ اجرت دینا مناسب نہیں۔ ہاں بس اس کا تین ماہ کا خرچہ دے گا۔
قاضی / جج بھی اجرت نہیں لیتا ، بیت المال سے ضرورت کے مطابق نفقہ اس کو ادا کیا جاتا ہے۔
(31)"للوسائل أحكام المقاصد"
وسیلہ کا بھی وہی حکم ہوتا ہے جومقصد کا حکم ہوتا ہے۔
مثال:جمعہ کی نماز مییں پہنچنا فرض ہے۔لھذا اس کی کوشش کرنا سعی کرنا بھی بھی فرض ہے۔
زنا حرام ہے،لھذا ایسے تمام کام جو زنا کا وسیلہ بنیں وہ بھی حرام ہیں ۔
حلال رزق عبادت ہے لھذا حلال رزق کے لیے محنت وتجارت بھی عبادت ہے۔
(32)"للقُرْب عبرة"
قریب کا اعتبار کیا جاتا ہے۔
مثال:کسی کے گھر کے ساتھ کھلی جگی پڑی ہو جو کسی کی ملکیت میں نہ ہو تو اس قریب کے گھر والے کے لیے حق ہی کہ وہ اس کو بطور صحن/پارک استعمال کر سکتا ہے۔دور والےکو یہ حق حاصل نہیں۔
کسی شہر کے قریب کوئی ویران زمین پڑی ہو تو اسی شہر والوں کا زیادہ حق ہے کہ وہ اس کو آباد کر کے اپنی ملکیت میں لے سکتے ہیں۔
حقیقی بھائی کا سوتیلے بھائی سے زیادہ حق ہوتا ہے۔
(33)"ما تميَّز بنفسه لا يحتاج إلى نيَّة"
جو چیز ویسے ہی واضح ہو جاۓ اس کے لیے نیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔
مثال:رمضان کا روزہ رکھا تو اس کےلیے نیت ضروری نہیں کیونکہ رمضان میں رمضان کا ہی روزہ ہو سکتا ہے۔
اللہ پر ایمان لانا اس کے لیے نیت ضروری نہیں کیونکہ واضح ہے۔
کسی سے کوئی چیز خریدی اس کے لیے نیت ضروری نہیں۔
(34)"ما تعلّق بسببين جاز تقديمه على أحدهما فی الحقوق المالیۃ"
جو چیز دو سبب سے تعلق رکھتی ہو تو اس چیز کو ایک سبب سے مقدم کرنا جائز ہے۔
مثال:ایک بندے نے قسم کھائی اور پھر اس قسم و توڑ دیا اس عمل کی وجہ سے اس پر قسم توڑنے کا کفارہ واجب ہو گیا۔اب یہاں پر کفارہ کے سبب دو ہیں ۔ایک قسم کھانا اور دوسرا قسم توڑنا۔لھذا اب دوسرا سبب (قسم توڑنے) سے پہلے اگر یہ بندہ کفارہ کے روزے رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے۔
زکاۃ کے وجوب کے دو سبب ہیں مالیت نصاب تک کی ہو اور اس پر سال پورا ہو۔اگر کسی نے ایک سبب یعنی سال پورا ہونے سے پہلے زکاۃ ادا کر دی تو ہوجاۓ گی۔
ایک بندہ سے دوسرے کا نقصان ہو گیا اور دوسرا بندہ یہ مقدمہ عدالت میں لے گیا ۔لھزا عدالت کے فیصلے سے پہلے بھی نقسان کرنے والا اس نقصان کی قیمت ادا کر سکتا ہے ۔
(35)"الصلح عن الحدود باطل"
حدود میں صلح نہیں ہو سکتی۔
مثال:ایک بندہ نے چوری کی،جس کی چوری کی اس نے چور سے کچھ مال لے کر اس کو معاف کر دیا۔تو یہ مال رشوت تصور ہوگااور چور کو پکڑا جاۓ گا۔
اگر قاضی نے کسی چور/زانی کو کچھ جرمانہ کر کے یا اس سے مال لے کر اس کو معاف کر دیا تو یہ معافی تصور نہ ہوگی ۔معافی فضول تصور ہو گی۔اور جو مال لیا گیا اس کو واپس کیا جاۓ گا۔
اگر چور نے مالک کو کہا کہ جو مال چوری کیا تھا واپس کرتا ہوں اور مجھے چھوڑ دو اور مالک نے اضافی پیسے لیے بغیر چھوڑ دیا تو جائز ہے۔معاف نہیں کر سکتا چھوڑ سکتا ہے۔
(36)"الربح لا يستحق إلا بعمل أو مال"
منافع کاحق دار بندہ دو وجہ سے ہوتا ہے،عمل ہو یا مال ہو۔
مثال:اگر کوئی بندہ مضاربت کرتا ہے یا مشارکت کرتا ہے تو جو اس کا مال ہے اس کی وجہ اس کو منافع ملا تو یہ منافع کا مستحق ہے
زید نے بکر کا مال علی کو مضاربت کےلیے دیا اور اس پر اجرت لی تو یہ جائز ہے کیونکہ عمل کی اجرت ہے۔
اسی صورت میں جب زید نے علی کو کسی اور کے مضاربت کےلیے دیے تو اب بکر منافع نہیں لے سکتا کیونکہ نہ تو اس کا مال ہے اور نہ ہی اس کی محنت ہے۔کئی لوگ اس میں ناجائز مال کما رہے۔
(37)"العقد الباطل لا تلحقه الإجازة"
جب عقد باطل ہوتو اس کو اجازت نہیں مل سکتی۔
مثال:اگر کسی نے دوسرے کی گاۓ کا بچہ جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا بیچ دیا تو جائز نہیں ہے۔اگر مالک نے اجازت دے بھی دی تو تب بھی جائز نہیں کیونکہ یہ بیع باطل ہے اس کو اجازت فائدہ نہیں دیتی۔
خمر(شراب) کی بیع باطل ہے اگرچہ اس کا مالک اجازت دے۔
(38)"فعل القاضي حكم كأمره"
قاضی کا فعل؟امر حکم ہوتا ہے۔
مثال:اگرقاضی نے کوئی زمین مدعی یا مدعا علیہ کے سپرد کر دی گویا کہ اس (مدعی /مدعا علیہ)کا اس میں حق ثابت ہوگیا۔
اگر جج نے کسی کی وہ زمین بیچ دی جو اس نے مرض کی حالت میں وقف کی تھی اور مر گیا تھا۔جج نے یہ زمین قرض خواہوں کےلیے فروخت کی تو یہ درست ہے اس کو قاضی کا حکم ہی کہا جاۓ گا۔
قاضی کا غاصب کو امر کرنا کہ چیز مالک کو دی جاۓ ،حکم تصور ہوگا۔
(39)"الثابت بظاهر الحال كالثابت بالبينة حال عدم البينة"
جو ظاہری حال سے ثابت ہو ایسے ہے جیسے گواہی(بینہ) سے ثابت ہے جب کہ گواہی نہ ہو۔
مثال:ایک بندہ ظاہری ھالت سے غریب نظر آرہا ہوتو اس کو زکاۃ صدقہ دینا جائز ہے۔
اگر کسی پر اسلام کی حالت ظاہر ہو تو اس کو مسلمان تصور کیا جاۓ۔
ظاہری حالت میں کوئی پاگل اور بیوقوف لگ رہا ہو تو اس پر پاگل کا ہی حکم لگایا جاۓ گا۔
(40)"التبرع لا يتم إلا بقبض"
تبرع(ہدیہ،ہبہ،صدقہ وغیرہ)قبضہ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
مثال:ایک بندہ نے دوسرے کو کچھ ہبہ کیا ،مگر ابھی قبضہ نہیں دیا تو رجوع کر سکتا ہے۔
ایک مسافر اپنے ساتھ دوستوں کے لیے ہدیہ وغیرہ لے کر جا رہا تھا راستے میں موت آگئی ۔۔تو اب وہ ہدیہ اس کی وراثت میں شامل ہوگا ۔
صدقہ بھی اس وقت پورا ہوگا جب اس کا قبضہ کسی حق دار کو دیا جاۓ گا۔
(41)"بالتمكن من الانتفاع يتقرر الأجر على المستأجر"
جب مستاجرکا چیز سے منافع اٹھانا ممکن ہو جاۓ تو اس پر اجرت دینا لازم ہوجاتا ہے۔
مثال:ایک بندہ نے زمین کرایہ پر لی کہ اس میں زراعت کرے گا۔پھر ایسا ہوا کہ سیلاب آیا اور زمین کھیتی باڑی کے قابل نہ رہی ۔اب اس پر اجرت دینا لازم نہیں رہا کیونکہ منافع ختم ہوگیا۔
ایک بندہ نے مکان کرایہ پر لیا ۔جب اس نے دیکھا تو مکان میں نہ بجلی ہے اور نہ پانی ہے اس لیے وہ مکان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا تو اب اجرت دینا لازم نہیں۔
گاڑی کرایہ پر لی،مگر گاڑی چل ہی نہیں رہی تو اب بھی اس کی اجرت دینا لازم نہیں ۔اگر گاڑی چل سکتی تھی اور خود نہیں چلائی تو کرایہ دینا لازم ہوگیا۔
(42)"الجمع بين الخَلَف والأصل لا يكون"
اصل اور اس کے خلف کو جمع نہیں کیا جاسکتا۔
مثال:وضو اصل اور تیمم خلف ہے۔
پانی کی موجودگی میں کوئی بندہ تیمم نہیں کر سکتا۔
اگر غسل واجب ہو اور کچھ پانی موجود ہو جس سے سارے جسم پر پانی بہانا ممکن نہ ہو تو تیمم کیا جاۓ گا۔ایسا نہیں ہو سکتا تیمم بھی ہو اور پانی کو بھی استعمال کیا جاۓ۔
متمتع کے پاس بکری کی آدھی قیمت ہو اور وہ پانچ روزے رکھے تو بھی جائز نہیں ۔کیونکہ اصل اور خلف جمع نہیں ہو سکتے۔
(43)"الجنون إذا وجد مرة فهو لازم أبداً"
جب ایک بار بندہ مجنون ثابت ہو گیا تو وہ ہمیشہ کے لیے لازم ہو جاتا ہے۔
مثال:(شرط یہ ہے کہ ماہر طبیب نے اس کو مجنون قرار دیا ہو۔
ایک دفعہ مرد کو جنون ہوگیا تھا اور ڈاکٹر نے اس پر جنون کا حکم لگا دیا۔
پھر ایک بار اس نے بیوی کو طلاق دے دی اب اس نے کہا کہ میں نے حالت جنون میں طلاق دی تھی تو اب اگر اس بات پر قسم کھاۓ تو اس کی بات کا اعتبار کیا جاتا ہے۔
اگر یہ پتہ چلا کہ فلاں مرتد ہوگیا تھا اور اسآدمی نے کہا کہ اس کو جنون ہوگیا تھا تو اس کی بات کا اعتبار کیا جاۓ گا۔
(44)"الحاكم إذا قضى في المجتهد فيه بشيء فليس لمن بعده من الحكام أن يبطل ذلك"
جب جج نے کسی ایسے معاملہ میں فیصلہ دیا جو اجتہادی تھاتو اس کے بعد والا قاضی اسی فیصلہ کو تبدیل نہیں کر سکتا۔
مثال:جب ایک قاضی نے حکم دیا کہ فلاں عورت اس مرد کے لیے حلال ہے تو دوسرا قاضی اس کے حکم کو تبدیل نہیں کر سکتا۔
اگر ایک قاضی نے یہ حکم دیا کہ خلع فسخ نکاھ ہے پھر اسی عورت کا کسی کے نکاھ کردیا تو اب دوسرا قاضی اس پہلے کے فیصلہ کو تبدیل نہیں کر سکتا۔
(45)"بدون السبب لا يثبت الحكم"
سبب کے بغیر حکم ثابت نہیں ہوگا۔
سورج کاغروب ہونا مگرب کی نماز کے وجوب کا سبب ہے۔اگر غروب ثابت نہیں ہوگا تو غروب کا فریضہ بھی نہیں ہوگا۔
محصن زانی پر رجم لاز ہے اگر وہ محصن نہیں ہے تو رجم بھی نہیں ہوگا۔
بچہ چھوٹا تھا اس کا کسی عورت سے نکاح کردیا گیا پھر اس عورت کا بچہ پیدا ہوا تو اس بچہ کی نسبت جس بچہ سے عورت کا نکاح ہوا ہے کی طرف نہیں ہوگی۔
(46)"الشهادة حجة في حق الكل، والإقرار حجة في حق المقرِّ خاصة "
گواہی ہر ایک کے حق کو ثابت کرتی ہے جبکہ اقرار صرف اقرار کرنے والے کے لیے ہوتا ہے۔
مثال:اگر دو بندوں نے کسی کے خلاف گواہی دی کہ اس نے چوری کی ہے اور ساتھ یہ بھی گواہی دی کہ چوری کا مال فلاں کو ہبہ کیا ہے تو اب چور کو بھی پکڑا جاۓ گا اور جس کے پاس چوری کا مال تھا اس کو بھی پکڑا جاۓ گا۔
اگر کسی نے اقرار کیا کہ اس نے چوری کی اور اس کے ساتھ فلاں بھی چوری میں شریک تھا۔اب اس کا اقرار اپنے لیے تو درست سمجھا جاۓ گا جو دوسرے کو ساتھ شریک کر رہا ہے اس کے لیے گواہی کی ضرورت ہوگی۔
اگر ایک بندہ پر کسی جرم کا الزام تھا مگر گواہوں نے چار بندوں کے خلاف گواہی دی تو تو ان سب کو پکرا جاۓ گا۔
(47)"الشبهة إنَّما تؤثر إذا اقترنت بالسبب الموجب"
شبہ اس وقت مؤثر ہوگا جب اس کے ساتھ سبب بھی ہوگا جو اس کا موجب(دلیل)ہوگا۔
مثال:اگر کسی عورت سے ہمبستری کی ،اس گمان سے کہ یہ اس کی بیوی ہے تو اس پر حد نہیں لگے گی مگر تعزیر ہوگی کیونکہ وہ اس کی بیوی ثابت نہیں ہوئی۔
کسی نے دوسرے کو قتل کر دیا۔پھر اختلاف ہوا کہ یہ قتل قاتل نے عمدا کیا تھا یا خطا تھا تو شبہ کی وجہ سے قصاص ساقط ہو گیا لیکن دیت ادا کی جاۓ گی۔
کسی نے چوری کی اور پھر کہان کہ اس کا اس مال میں حق تھا تو اب اس پرشبہ کی وجہ سے حد نہیں لگے گی ۔
(48)"الضمان بالشك لا يجب"
شک کی وجہ سے ضمان واجب نہیں ہوتی۔
مثال:ایک بندہ کو گاڑی لگی اور شدید زخمی ہو گیا پھر اس کا علاج کروایا گیا واور شفا پانے کے بعد مر گیا تو اب اس کی دیت نہین دی جاۓ گی کیونکہ شک ہے ان زخموں کی وجہ سے مرا یا قدرتی موت مر گیا۔
کسی کے پاس ودیعت رکھوائی تھی ۔اور وہ ہلاک ہوگئی۔اب امین کہتا ہے کہ اس کی حفاظت میں ہی قدرتی طور پر ہلاک ہوئی جبکہ مالک کہتا ہے امین کی وجہ سے ہلاک ہوئی اب شک آگیا اس لیے امین پر ودیعت کی ہلاکت کی وجہ سے ضمان نہیں ہوگا۔جب تک مالک اس پر گواہی نہ پیش کردے۔
(49)"خير الأمور أوساطها"
درمیانی کام سب سے بہتر ہوتے ہیں۔
مثال:موصی اور وارث کا وراثت تقسیم میں اختلاف ہوگیا تو دونوں کی بات کا خیال رکھتے ہوۓ متوسط فیصلہ کیا جاۓ گا۔
کسی انسان پر کسی چیز کی قیمت واجب ہوگئی اب تاجر اس ی قیمت میں اختلاف کر رہے ہیں،کوئی زیادہ بتا رہا اور کوئی کم،تو درمیانی قیمت پر فیصلہ کیا جاۓ گا۔
ایک معاملہ میں لوگوں کی آراء مختلف ہوں تو درمیانی راۓ پر عمل کیا جاۓ گا۔
(50)"لاضرر و لا ضرار"
نہ نقصان دو نہ ہی نقصان لو۔
مثال:اگر مالک نے اپنی ملکیت میں کوئی ایسا کام کیا جس جسے دوسرے کو ضرر ہو تو مالک کو اس سے روکا جاۓ گا۔جیسے گھر میں اونچی آواز میں گانے وغیرہ چلاتا ہے۔
اگر وصیت سے کسی کا نقصان ہو رہا ہوتو اگرچہ وصیت کو پورا کیا جاتا ہے مگر نقصان کی وجہ سے وصیت کو پورا نہیں کیا جاۓ گا۔
بیوی کو تکلیف دینے کی غرض سے نہیں روکا جاسکتا۔
اگر کسی نے مسلمانوں میں قتل وغارت کی کوشش ی تو اس کو قتل کیا جاۓ گا تا کہ ضرر سے بچا جاۓ۔
الحمدللہ پچاس فقہی قاعدے اللہ تعالی کی نصرت و اعانت سے مکمل کیے گۓ جو مختلف کتب سے اکٹھے کیے گۓ تھے۔بحمد اللہ تعالی و بتوفیقہ۔
(5)" الضَّرَر الأشد يزَال بِالضَّرَرِ الأخف "
زیادہ نقصان کو تھوڑے نقصان کے ساتھ ختم کرنا صحیح ہے۔
مثال:اگر کوئی مال دار ہے اور اس کا باپ یا بیٹا غریب ہے تو اس مال دار کے مال سے اس کے باپ ماں بیٹا، بیٹی پر اس کے مال سے خرچ کرنا جائز ہے۔
اگر کسی کا نفقہ کسی دوسرے پر واجب ہو اور وہ ادائگی نہ کرتا ہو تو اس کو مار پیٹ یا جیل میں ڈالنا جائز ہے۔
اگر مریض بڑی بیماری سے ایسی دوا سے ٹھیک ہوکہ اس سے چھوٹی بیماری لگ جاۓ تو ایسا دوا کااستعمال جائز ہے۔
(6)" إِذا بَطل الشَّيْء بَطل مَا فِي ضمنه "
جب ایک چیز غلط ہو تو جو کچھ اس کے ماتحت ہوگا وہ بھی غلط ہوگا۔
مثال:اگر کسی نے کوئی چیز غصب کی اور بیچ دی پھر اس خریدار نے بھی بیچ دی تو چونکہ پہلا بیچنا ہی درست نہ تھا۔اس لیے سب کا بیچنا درست نہیں۔
اگر اپنی بیوی سے ہی نکاح کر لیا تو مہر واجب نہیں ہوگا کیونکہ وہ پہلے سے ہی بیوی تھی دوسرا نکاح درست نہیں تھا۔
نماز مین ایک فرض غلط ہوگیا جیسے پہلی رکعت کا قیام نہیں کیا یا رکوع نہیں کیا تو باقی جو فرض ہیں وہ بھی باطل ہوگۓ نماز دوبارہ پڑھنا ہو گی۔
(7)"الخطأ لا يستدام ولكن يرجع عنه"
خطا ہوجاۓ تو اس کو قائم نہیں رکھا جاتا بلکہ اس کو چھوڑا جاتا ہے۔
مثال:اگر جج نے کوئی فیصلہ دیا پھر اس کو ظاہر ہوا کہ اس نے غلطی کی تو اس سے رجوع کرنا لازم ہے۔
کوئی بھی کام ہو جب ظاہر ہو کہ یہ غلط ہے تو اس کو چھوڑ دینا لازم ہے۔
کسی ایسی عورت سے نکاح ہو گیا جس سے نکاح جائز نہ تھا تو اللہ سے توبہ کرے۔اور یہ ازدواجی تعلقات ختم کرے گا۔
(8)" الْعبْرَة للْغَالِب الشَّائِع لَا للنادر "
جو چیز غالب ہو اور عام عمل ہو اس کی مثال دی جاتی ہےاور وہ مراد لیا جاتا ہے اور جو کام کبھی ہو بہت کم ہو اس سے مراد نہیں لیا جاتا۔
مثال:امام ،مؤذن کی تنخواہ مقرر ہونا اور دینا عام رواج ہے لھذا اس یر عمل کیا جاۓ گا۔
آج کل جج بے چارے بک بھی جاتے ہیں اور مجبور ہوتے ہیں لھذا جج بغیر گواہی کے فیصلہ نہیں کر سکتا اگر چہ وہ کام اس نے خود دیکھا ہو۔
چونکہ غالب یہ ہےکہ خاوند بیوی کو دوسرے ملک لے جاتا ہے اور تنگ کرتا ہے تو اب خاوند بیوی کو دوسرے ملک لے جانے پر مجبور نہیں کرسکتا۔
بجلی کی تار گلی میں ننگی لٹکی ہو تو غالب یہی ہوتا ہے کہ کرنٹ لگ جاۓ گا تو لھذا اس کو ہٹانا ضروری ہوتا ہے۔
(9)"ذو السببين مقدم في الاستحقاق على ذي السبب الواحد"
جس چیز میں کوئی دو سبب کی وجہ سے حق رکھتا ہو تو وہ ایک سبب کی نسبت زیادہ حقدار ہے۔
مثال:ایک بندہ کے دو بھائی ہیں ایک بھائی ماں اور باپ دونوں سے ہے،اور دوسرا بھائی صرف باپ کی طرف سے بھائی ہے یعنی اس کی ماں کوئی اور ہے تو اس بندہ کی وراثت اس کو ملے گی جو ماں باپ دونوں طرف سے بھائی ہے۔
حقیقی بھائی ،سوتیلے بھئی کی نسبت بہن کے نکاح کرانے کا زیادہ حقدار ہے۔
زکاۃ اس کو دینا زیادہ بہتر ہے جو رشتہ دار بھی ہو اور غریب ہو۔کیونکہ اس میں دو حق ہیں ۔
(10)"الفرض لا يؤخذ عليه عوض"
جو چیز کسی پر فرض ہو اس پر اجرت نہیں لے سکتا۔
مثال:مسلم جو اللہ کے راستہ میں جہاد کر رہا ہو،اس پر اجرت نہیں لے سکتا۔
جب امین نے امانت واپس کرنی ہو تو یہ اس پر واجب ہے لھذا اس پر اجرت نہیں لے سکتا۔
مقروض جب قرض واپس کرے تو قرض واپس کرنے پر جو خرچہ آۓ اس پر مقروض اجرت حاصل نہیں کرسکتا۔
جس بندہ کا مال گم ہوگیا اس نے اعلان کیا کہ جو مجھے یہ مال دے گا میں اس کو اتنی اجرت دوں ،جب کسی نے اس کو مال لوٹا دیا تو اس پر اجرت لینا جائز نہیں کیونکہ یہ مال مالک تک لوٹانا اس پر واجب تھا۔
(11)" الِاضْطِرَار لَا يبطل حق الْغَيْر "
مجبوری (اضطرار) کی حالت میں جو چیز حلال ہوتی ہے اس میں دوسرے کا حق بر قرار رہتا ہے۔
مثال:ایک بندہ بھوک سے مر رہا تھا اس نے بغیر اجازت کسی کی چیز کھالی تو جس کی چیز کھائی ہے اس سے معاف کروانا یا اتنا مال واپس کرنا ضروری ہے۔
ایک عورت اجرت لیتی تھی اورکسی کے بچے کو دودھ پلاتی،پھر عورت نے دودھ پلانا چھوڑ دیا اور اب بچہ کسی اور کا دودھ پیتا نہیں اور نہ ہی کھانا کھا سکتا ہے، اس حالت میں اس عورت کو مجبور کیا جاۓ گا کہ بچے کو دودھ پلاۓ اور اس مجبوری میں عورت کو اجرت جو اس کا حق ہے وہ بھی دیا جاۓ گا۔کیونکہ مجبوری میں بچہ کاحق ثابت ہو گیا اور عورت کی اجرت اس مجبوری کی وجہ سے نہیں چھوڑی جاۓ گی۔
زمین اجارہ پر لی،اجارہ کی مدت مثلا ایک سال پوری ہوگئی اور اب فصل کھڑی ہے ،اس کی کٹائی نہیں ہوسکتی،تو مجبوری ہے کہ ایک سال سے زیادہ مدت تک وہ زمین کسان کے پاس اجارہ پر رکھی جاۓ گی،اور وہ اس کا اتنا حساب سے اجارہ بھی ادا کرے گا۔
(12)"الأَصْل إِضَافَة الْحَادِث إِلَى أقرب أوقاته "
کسی بھی واقعہ میں جب وقت کا جھگڑا ہو تو اس کو قریبی مدت سمجھا جاۓ گا۔
مثال: خاوند نے بیوی کو طلاق دی اور پھر جلد ہی خاوند بیمار ہوا اور مر گیا۔اس کے مرنےکے بعد عورت نے دعوی کیا کہ اس کو طلاق حالت مرض میں دی تھی اس لیے وہ وراثت لے گی جبکہ باقی ورثہ کہہ رہے کہ نہیں طلاق خاوند نے بیمار ہونے سے پہلے دی تھی تو اب عورت مدت قریب کا یعنی مرض کی طلاق کا ذکر کر رہی لھذا اس کی بات معتبر ہوگی۔
بائع نے چیز بیچی اور مشتری کو اختیار دیا کہ تین دن میں واپس کرنا چاہے تو کر سکتا ہے،مشتری نے تیسرے دن چیز واپس کر دی ،بائع کہتا ہے کہ آپ نے تین دن پورے ہونے کے بعد واپس کی جبکہ مشتری کہتا ہے تین دن پورے نہیں ہوۓ تھے ،قریب کی مدت تین دن کے بعد کی ہے لھذا بائع کی بات لی جاۓ گی۔
(13)" مَا حرم فعله حرم طلبه "
جو فعل حرام ہو اس کو طلب کرنا بھی حرام ہوتا ہے۔
مثال:جیسے کسی کو دھوکہ دینا حرام ہے تو اس کی کوشش کرنا حرام ہے۔
چوری کرنا حرام ہے تو اس کی ترغیب دینا کوشش کرنا حرام ہے۔
نبوت کا دعوی کرنا حرام ہے تو اگر کوئی کرتا ہے تواس سے ثبوت مانگنا معجزہ مانگنا بھی حرام ہے۔
(14)" الْأَمر بِالتَّصَرُّفِ فِي ملك الْغَيْر بَاطِل "
کسی دوسرے کی ملکیت میں چیز کو استعمال کا حکم دینا غلط(باطل)ہے۔
مثال:کسی نے دوسرے کو بتایا کہ فلاں نے آپ کو پیغام بھیجا ہے کہ اس کے مال سے آپ تجارت کریں ۔پھر اس نے تجارت کی،اور مال کا منافع کی بجاۓ خسارہ ہو گیا تو یہ تجارت کرنے والا آدمی اس مال کا ضامن ہوگا کیونکہ دوسرے کے مال کو اس کی اجازت کے بغیر استمال کیا۔
اگر کسی نے دسرے کا مال استعمال کیا پھر مالک نے کہا کہ میں نے تو اجازت نہیں دی تھی تو مالک کی بات مانی جاۓ گی۔
کوئی کہتا ہے یہ گاڑی لے جاؤ استعمال کرو جبکہ یہ گاڑی کہنے والی کی ملکیت یا جائز قبضہ نہیں ہے تو استعمال جائز نہیں ہے۔
(15)"الْيَقِين لَا يَزُول بِالشَّكِّ"
یقین کو شک ختم نہیں کر سکتا ۔
مثال:جب بندہ نے وضو کیا پھر اس کو شک ہو گیا کہ وضو ہے یا ٹوٹ گیا تو شک کو نہیں دیکھا جاۓ گا بلکہ یقین کو ہی دیکھا جاۓ گا کہ وضو ہے۔
اگر یہ یقین ہے کہ بندہ بیت الخلاء گیا تھااور اس کا وضو نہیں تھا پھر شک ہو گیا کہ وضو کیا تھا یا نہیں تو اب چونکہ یقین اس پرہے کہ وضو نہیں تھا تو اسی یقین کو لیا جاۓ گا اور کہا جاۓ گا کہ وضو نہیں ہے۔
زید کو پتہ تھا کہ علی نے عثمان کا قرض دینا ہے پھر زید کو شک ہو گیا کہ شاید علی نے ادائیگی کردی لیکن اب شک کو نہیں دیکھا جاۓ گا بلکہ زید یقین پر ہی گواہی دے گا کہ علی نے عثمان کا قرض دینا ہے۔
(16)" الِاجْتِهَاد لَا ينْقض بِمثلِهِ "
اجتہاد (غور وفکر)سےجو ثابت ہو اس کو اسی درجہ کے اجتہاد سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
مثال:کسی معاملہ میں ایک ایسےجج نے فیصلہ دیا جو شافعی تھا اور اس نے اپنےاجتہاد(غور و فکر)سے فیصلہ دیا تھا ،پھر وہی معاملہ حنفی جج کے پاس لایا گیا تو اب حنفی جج شافعی جج کے فیصلہ کےخلاف اپنے اجتہاد سے فیصلہ نہیں دے سکتا۔
ایک بندہ جو مسافر تھا اس کو قبلہ کا پتہ نہیں تھا کوئی بتانے والا بھی نہیں،اس نے خود سوچ و بچار کیا کہ ستارے یا علامات ایسی ہیں اس طرف قبلہ ہے پھر نماز شروع کردی،نماز میں ہی اس کو دوسری طرف ویسے ستارے یا علامات نظر آئیں تو اب وہ قبلہ تبدیل نہیں کر سکتا۔
(17)"الضَّرَر يزَال"
نقصان/تکلیف کو ختم کیا جاۓ گا۔
مثال:اگر بائع نے مشتری کو چیز بیچی اور قیمت کا بازار کی قیمت سےبہت فرق تھا اور مشتری کو معلوم نہ تھا،لھذا اب مشتری کو اختیار دیا جاۓ گا کہ وہ چیز واپس کر سکتا ہے تاکہ اس کا جو نقصان کیا ہے اس کو واپس کیا جاۓ۔
اگر راستہ میں نقصان دہ چیز ہے یا جانور ہے جس سے گزرنا ممکن نہیں تو اس نقصان دہ چیز کو ہٹایا جاۓ گا۔
نماز کے وقت مقرر کیے گۓ اگر مقرر نہ ہوتے تو لوگ جماعت میں شریک نہ ہوتے یا دوسروں کا انتظار کرتے رہتے۔
شفعہ کا حق بھی اسی لیے ہے کہ ممکن ہے جو نیا پڑوسی آۓ وہ تکلیف دینے والا ہو۔
(18)" دَرْء الْمَفَاسِد أولى من جلب الْمصَالح "
فساد/ نقصان کو دور کرنا،فائدہ حاصل کرنے سے بہتر ہے۔
مثال:کوئی بندہ اپنے گھر کی دیوار میں کھڑکی لگاتا ہے جو کہ فائدہ ہے مگر اس سے نقصان یہ کرتا ہے کہ اس کھڑکی گزرنے والی عورتوں پر آوازے کستا ہے تو اس نقصان سے بثنا بہتر ہے لھذا کھڑکی بند کر دی جاۓ۔
گھر کے کچن کا دھواں پڑوسی کی طرف جاتا ہے تو اگرچہ یہ اس گھر والے کا فائدہ ہے مگر پڑوسی کے نقصان کی وجہ سے یہ فائدہ حاصل کرنا مناسب نہیں۔
ہر وہ کام جس مین اتنا فائدہ ہو اور اتنا ہی نقصان ہو تو فائدہ حاصل کرنے کی بجاۓ نقصان کو دور کیا جاۓ گا۔
(19)" يُضَاف الْفِعْل إِلَى الْفَاعِل، لَا إِلَى الْآمِر مَا لم يكن مجبراً "
ہر فعل کا ذمہ دار اس کا کرنے والا ہوگا،حکم دینے والا نہیں ہوگا مگر یہ کہ جب کرنے والا مجبور ہو۔
مثال:ایک آدمی نے دوسرے کوحکم دیا کہ فلاں کا مال ضائع کردو اور دوسرے نے یہ کام کردیا تو تو اب کرنے والا اس نقصان کا ذمہ دار ہوگا۔
اگر ایک نے دوسرے کا کہا کہ فلاں کی دیوار کو توڑدو،پھر اس نےتوڑ دیاتو اب توڑنے والے اس نقصان کا ذمہ دار ہوگا لیکن یہ توڑنے والا نقصان کی تلافی حکم دینے والے سے کرے گا۔
اگر ایک نے دوسرے کو کہا کہ فلاں کا مال چوری کرو اگر نہیں کیا تو تجھے جان سے مار دوں گا تو اب یہ بندہ چوری کرتا ہے یا کسی کی چیز اٹھاتا ہے تو اس کے نقصان کا ذمہ دار نہیں ہوگا ۔
(20)"الظن إذا كان كاذبا فلا أثر له"
ظن/گمان جب جھوٹا ثابت ہوجاۓ تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
مثال:ایک بندہ پر روزے فرض تھے اور وہ ایسا بیمار ہوا کہ اب ٹھیک ہونے کا گمان نہیں،بس یہی گمان ہے کہ مر جاۓ گا تو اس نے ہر روزہ کے بدلے فدیہ ادا کر دیا،پھر وہ بندہ تندرست ہو گیا تو گویا اس کا گمان غلط ثابت ہوا اس لیے اس گمان کا اثر ختم ہو جاۓ گا اور وہ روزوں کی قضا کرے گا۔
بندہ نے نماز پڑھی اس گمان سے کہ اس کا وضو ہے،پھر ظاہر ہوا کہ وضو نہیں تھا تو نماز دوبارہ پڑھے گا۔
کسی نے زکاۃ یا کسی قرض مال سے دیا جس کو وہ اپنا مال سمجھ رہا تھا،بعد میں پتہ چلا کہ یہ اس کا مال نہیں تھا۔تو قرض یا زکاۃ ادا نہیں ہوئی۔
(21)"النسيان عذر في المنهيات دون المأمورات"
بھول جانے کا عذر ان کاموں میں ہوتا ہے جن سے روکا گیاہو،ان کاموں میں نہیں ہوتا جن کا حکم دیا گیا ہو۔
مثال:روزہ دار کو کھانے پینے سے روکا گیا اگر کسی نے بھول کر کھا لیاتو اس کا بھولنے کا عذر قبول ہوگا روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
نماز مین فاتحہ پڑھنےکا حکم دیا گیا اگر کوئی بھول گیا تو تو اس کا عذر قبول نہ ہوگا کیونکہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا جہاں کچھ کرنے کا حکم ہو اس میں عذر قبول نہیں ۔لھذا سجدہ سہو کرے گا یا دوبارہ نماز پڑھے گا۔
اگر کوئی اپنے کجاوہ میں پڑا ہوا پانی بھول گیا تیمم کر کے نماز پڑھی پھر یاد آیا تو اب دوبارہ وضو کر کے نماز پڑھے گا کیونکہ کرنے کاکام تھا اس کو بھول گیا۔
(22)"ما أوجب أعظم الأمرين بخصوصه لا يوجب أهونهما بعمومه"
جہاں دو چیزوں میں سے بڑی چیز لازم ہو جاۓ تو چھوٹی چیز لازم نہیں ہوتی۔
مثال: زنا کرنے والا اگر شادی شدہ (محصن) ہے تو اس کو اب رجم کیا جاۓ گا یعنی پتھروں سے مار دیا جاۓ گا لیکن اس سزا کے ساتھ اس کو چھوٹی سزا( یعنی شہر سے نکالنا)پر عمل نہیں کیا جاۓ گا۔
منی نکنے سے غسل واجب ہوتا ہے تو غسل سے چھوٹا کام وضو ٹوٹنا تو منی نکلنے سے وضو لازم نہیں ہوتا کیونکہ بڑی چیز لازم ہوگئی۔
ایک نے دوسرے کو مارا اس کے ہاتھ کات دیے پھر وہ مظلوم مر گیا تو اب مجرم پر سزا اس مظلوم کے قتل کی ہوگی ،اس کے ہاتھ کاٹنے کی نہ ہوگی۔
(23)"الرشوة أخذ المال ليحق به الباطل أو يبطل الحق"
رشوت یہ ہے کہ مال لے کر باطل کو حق کیا جاۓ یا حق کو باطل کیا جاۓ۔
مثال:ایک بندہ مظلوم ہے وہ اپنی جان چھڑانے کے لیےکسی کو مال دیتا ہے تو یہ رشوت نہیں ہے۔اس صورت میں دوسرے کا مال لینا جائز نہیں ہے۔
کوئی مجرم کو چھرانے کےلیے مال دیتا ہے تو اس میں مال لینا بھی رشوت ہے اور مال دینا بھی رشوت ہے۔
کوئی اپنا حق لینے کے لیے مال دیتا ہے تو اس میں مال دینا تو جائز ہے مگر دوسرے کے لیے لینا جائز نہیں اس کے لیے رشوت ہوگی
(24)"يختار أهون الشّرّين"
دو فساد/شر والے کا،کاموں میں سے تھوڑے نقصان کو اختیار کیاجاۓ گا۔
مثال:ایک بندہ جو حق پر ہے اپنا حق رشوت دینے کے بغیر نہیں لے سکتا اور رشوت دینا ظالم کی مدد ہے تو اب یہ رشوت دے کر جو کہ تھوڑے شر کاکام ہے،اپنا حق لے سکتا ہے۔
ایک مجبور آدمی سود پر قرض لے سکتا ہے تاکہ جو اس کی اہم ضرورت ہے اس کو پورا کیا جاۓ۔
اگر ایک ڈررائیور کے سامنے دو طریقے ہوں کہ ایک بندہ کی جان کا خطرہ ہے لیکن اگر اس کو بچاۓ تو زیادہ جانوں کا خطرہ ہے تو زیادہ کی جانوں کو بچاۓ گا۔
(25)"الساقط لایعود"
جو چیز ساقط (ختم )ہو جاۓ وہ دوبارہ نہیں آتی۔
مثال:بائع نے مشتری کو کوئی چیز نقد بیچی بائع چاہے تو اس چیز کو روک لے جب تک قیمت نہ لے لے لیکن اگر اس نے قیمت لینے سے پہلے ہی چیز مشتری کے حوالہ کر دی تو اب اس نے چیز سے حق ختم کر لیا۔ اب اس چیز کو دوبارہ قبضہ میں نہیں لی سکتا۔
کسی سے قرض لینا تھا اس کو معاف کر دیا تو اب یہ قرض لینے کا عمل ختم ہو گیا۔ اب اس کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔
عدالت میں اپنے کسی حق کو چھوڑ دیا تو پھر اس حق کا مطالبہ نہیں ہو سکتا۔
(26)"حقوق العبادتتوجہ علی الصبیان والمجانین عند تقرر السبب کما تتوجہ علی البالغین"
حقوق العباد جب کوئی سبب پایا جاۓ تو بچوں اور مجنون پر بھی لازم آتا ہے جیسے بڑوں پر لازم آتا ہے۔
مثال: ایک بچے نے یا پاگل نے کسی کو قتل کر دیا تو اب ان پر قصاص تو نہیں ہوگا مگر دیت ان کے خاندان(عاقلہ) پر لازم آۓ گی۔ یا پھر اس بچے پر دیت لازم آۓ گی جب وہ بالغ ہوگا۔ بچے کی وجہ سے قتل کو چھوڑا نہیں جاۓ گا۔
اگر کسی انسان کے جانور ( بھینس ،گاۓ ) نے کسی کا نقصان کردیا تو مالک سے اس کا نقصان پورا کروایا جاۓ گا۔
بچے نے کسی کا نقصان کر دیا تو بڑوں سے اس کے نقصان کو پورا کیا جاۓ گا۔
(27)"لا مساغ للاجتھاد فی مورد النص"
جہاں پر نص(قرآن و سنت) آجاۓ وہاں اجتہاد کی گنجائش نہیں ہوتی۔
مثال:سود کا حرام ہونا قرآن سے ثابت ہے لہذا اس کےلیے اجتہاد کر کے کوئی گنجائش نہیں بنائی جاۓ گی۔
قربانی کا وجوب نص سے ثابت ہے اس لیے عقل سے سوچ کر قربانی کی بجاۓ غریب کا تعاون کرنا درست نہیں۔
چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے لہذا اس سزا میں تبدیلی جائز نہیں۔
(28)"قدر مالایستطاع الامتناع منہ یعتبر عفوا"
اتنی مقدار جس سے بچنا ممکن نہ ہو ،وہ معاف ہوتا ہے۔
مثال:کپڑے پر خون لگا تھا پھر دھو دیا مگر نشان / دھبہ باقی رہا تو یہ خون کا نشان معاف ہے۔
کسی کو ڈر ہو کہ غسل خانہ میں پیشاب کے انتہائی باریک چھینٹے پڑتے ہیں۔ تو اب اس قدر کو معاف تصور کیا جاۓ گا۔ کیونکہ اس سے بچنا ممکن نہیں۔
ہم جو گاڑی چلاتے ہیں۔ یقینا لوگوں کوتھوڑی بہت اس سے پریشانی ہوتی ہے۔ کبھی کسی کو فضول ہارن دیا جاتا ہے تو یہ بھی معاف ہے کیونکہ اس سے بچنا ممکن نہیں۔
(29)"الشروع ملزم"
عبادت میں کوئی چیز شروع کرنے سے لازم ہوجاتی ہے۔
مثال:کسی نے نفل نماز شروع کی تو اب اس کو باطل نہیں کرے گا بلکہ اس کو ادا کرے گا اگر اس کو باطل کیا تو اب قضاء اس کے ذمہ لازم ہوگئی۔
نفلی قربانی کا جانور لینے سے قربانی لازم ہو جاۓ گی۔
کسی مسلم کی رہنمائی ، تعاون ،جائز دوستی ( حقوق العباد) کو جب شروع کیا تو اس کو پورا کیا جاۓ گا۔ اس کو دھوکہ یا اس کے اعتماد کی خلاف ورزی نہیں کی جاۓ گی۔
(30)"الطاعات التی لا یجوز اداؤھا من الکافر لا یجوز الاستئجار علیھا"
ایسی طاعات/ عبادات جن کو کافر ادا نہیں کرسکتا ،اس پر اجرت لینا مسلم کے لیے جائز نہیں ہے۔
مثال:اذان دینا کافر کے لیے جائز نہیں ہے لہذا مسلم بھی اذان دینے پر اجرت نہیں لے سکتا۔
کسی بندہ کو اجرت دینا کہ یہ تین ماہ کی آپ کو تنخواہ دیتے ہیں فلاں کی طرف سے حج کر آؤ تو یہ اجرت دینا مناسب نہیں۔ ہاں بس اس کا تین ماہ کا خرچہ دے گا۔
قاضی / جج بھی اجرت نہیں لیتا ، بیت المال سے ضرورت کے مطابق نفقہ اس کو ادا کیا جاتا ہے۔
(31)"للوسائل أحكام المقاصد"
وسیلہ کا بھی وہی حکم ہوتا ہے جومقصد کا حکم ہوتا ہے۔
مثال:جمعہ کی نماز مییں پہنچنا فرض ہے۔لھذا اس کی کوشش کرنا سعی کرنا بھی بھی فرض ہے۔
زنا حرام ہے،لھذا ایسے تمام کام جو زنا کا وسیلہ بنیں وہ بھی حرام ہیں ۔
حلال رزق عبادت ہے لھذا حلال رزق کے لیے محنت وتجارت بھی عبادت ہے۔
(32)"للقُرْب عبرة"
قریب کا اعتبار کیا جاتا ہے۔
مثال:کسی کے گھر کے ساتھ کھلی جگی پڑی ہو جو کسی کی ملکیت میں نہ ہو تو اس قریب کے گھر والے کے لیے حق ہی کہ وہ اس کو بطور صحن/پارک استعمال کر سکتا ہے۔دور والےکو یہ حق حاصل نہیں۔
کسی شہر کے قریب کوئی ویران زمین پڑی ہو تو اسی شہر والوں کا زیادہ حق ہے کہ وہ اس کو آباد کر کے اپنی ملکیت میں لے سکتے ہیں۔
حقیقی بھائی کا سوتیلے بھائی سے زیادہ حق ہوتا ہے۔
(33)"ما تميَّز بنفسه لا يحتاج إلى نيَّة"
جو چیز ویسے ہی واضح ہو جاۓ اس کے لیے نیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔
مثال:رمضان کا روزہ رکھا تو اس کےلیے نیت ضروری نہیں کیونکہ رمضان میں رمضان کا ہی روزہ ہو سکتا ہے۔
اللہ پر ایمان لانا اس کے لیے نیت ضروری نہیں کیونکہ واضح ہے۔
کسی سے کوئی چیز خریدی اس کے لیے نیت ضروری نہیں۔
(34)"ما تعلّق بسببين جاز تقديمه على أحدهما فی الحقوق المالیۃ"
جو چیز دو سبب سے تعلق رکھتی ہو تو اس چیز کو ایک سبب سے مقدم کرنا جائز ہے۔
مثال:ایک بندے نے قسم کھائی اور پھر اس قسم و توڑ دیا اس عمل کی وجہ سے اس پر قسم توڑنے کا کفارہ واجب ہو گیا۔اب یہاں پر کفارہ کے سبب دو ہیں ۔ایک قسم کھانا اور دوسرا قسم توڑنا۔لھذا اب دوسرا سبب (قسم توڑنے) سے پہلے اگر یہ بندہ کفارہ کے روزے رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے۔
زکاۃ کے وجوب کے دو سبب ہیں مالیت نصاب تک کی ہو اور اس پر سال پورا ہو۔اگر کسی نے ایک سبب یعنی سال پورا ہونے سے پہلے زکاۃ ادا کر دی تو ہوجاۓ گی۔
ایک بندہ سے دوسرے کا نقصان ہو گیا اور دوسرا بندہ یہ مقدمہ عدالت میں لے گیا ۔لھزا عدالت کے فیصلے سے پہلے بھی نقسان کرنے والا اس نقصان کی قیمت ادا کر سکتا ہے ۔
(35)"الصلح عن الحدود باطل"
حدود میں صلح نہیں ہو سکتی۔
مثال:ایک بندہ نے چوری کی،جس کی چوری کی اس نے چور سے کچھ مال لے کر اس کو معاف کر دیا۔تو یہ مال رشوت تصور ہوگااور چور کو پکڑا جاۓ گا۔
اگر قاضی نے کسی چور/زانی کو کچھ جرمانہ کر کے یا اس سے مال لے کر اس کو معاف کر دیا تو یہ معافی تصور نہ ہوگی ۔معافی فضول تصور ہو گی۔اور جو مال لیا گیا اس کو واپس کیا جاۓ گا۔
اگر چور نے مالک کو کہا کہ جو مال چوری کیا تھا واپس کرتا ہوں اور مجھے چھوڑ دو اور مالک نے اضافی پیسے لیے بغیر چھوڑ دیا تو جائز ہے۔معاف نہیں کر سکتا چھوڑ سکتا ہے۔
(36)"الربح لا يستحق إلا بعمل أو مال"
منافع کاحق دار بندہ دو وجہ سے ہوتا ہے،عمل ہو یا مال ہو۔
مثال:اگر کوئی بندہ مضاربت کرتا ہے یا مشارکت کرتا ہے تو جو اس کا مال ہے اس کی وجہ اس کو منافع ملا تو یہ منافع کا مستحق ہے
زید نے بکر کا مال علی کو مضاربت کےلیے دیا اور اس پر اجرت لی تو یہ جائز ہے کیونکہ عمل کی اجرت ہے۔
اسی صورت میں جب زید نے علی کو کسی اور کے مضاربت کےلیے دیے تو اب بکر منافع نہیں لے سکتا کیونکہ نہ تو اس کا مال ہے اور نہ ہی اس کی محنت ہے۔کئی لوگ اس میں ناجائز مال کما رہے۔
(37)"العقد الباطل لا تلحقه الإجازة"
جب عقد باطل ہوتو اس کو اجازت نہیں مل سکتی۔
مثال:اگر کسی نے دوسرے کی گاۓ کا بچہ جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا بیچ دیا تو جائز نہیں ہے۔اگر مالک نے اجازت دے بھی دی تو تب بھی جائز نہیں کیونکہ یہ بیع باطل ہے اس کو اجازت فائدہ نہیں دیتی۔
خمر(شراب) کی بیع باطل ہے اگرچہ اس کا مالک اجازت دے۔
(38)"فعل القاضي حكم كأمره"
قاضی کا فعل؟امر حکم ہوتا ہے۔
مثال:اگرقاضی نے کوئی زمین مدعی یا مدعا علیہ کے سپرد کر دی گویا کہ اس (مدعی /مدعا علیہ)کا اس میں حق ثابت ہوگیا۔
اگر جج نے کسی کی وہ زمین بیچ دی جو اس نے مرض کی حالت میں وقف کی تھی اور مر گیا تھا۔جج نے یہ زمین قرض خواہوں کےلیے فروخت کی تو یہ درست ہے اس کو قاضی کا حکم ہی کہا جاۓ گا۔
قاضی کا غاصب کو امر کرنا کہ چیز مالک کو دی جاۓ ،حکم تصور ہوگا۔
(39)"الثابت بظاهر الحال كالثابت بالبينة حال عدم البينة"
جو ظاہری حال سے ثابت ہو ایسے ہے جیسے گواہی(بینہ) سے ثابت ہے جب کہ گواہی نہ ہو۔
مثال:ایک بندہ ظاہری ھالت سے غریب نظر آرہا ہوتو اس کو زکاۃ صدقہ دینا جائز ہے۔
اگر کسی پر اسلام کی حالت ظاہر ہو تو اس کو مسلمان تصور کیا جاۓ۔
ظاہری حالت میں کوئی پاگل اور بیوقوف لگ رہا ہو تو اس پر پاگل کا ہی حکم لگایا جاۓ گا۔
(40)"التبرع لا يتم إلا بقبض"
تبرع(ہدیہ،ہبہ،صدقہ وغیرہ)قبضہ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
مثال:ایک بندہ نے دوسرے کو کچھ ہبہ کیا ،مگر ابھی قبضہ نہیں دیا تو رجوع کر سکتا ہے۔
ایک مسافر اپنے ساتھ دوستوں کے لیے ہدیہ وغیرہ لے کر جا رہا تھا راستے میں موت آگئی ۔۔تو اب وہ ہدیہ اس کی وراثت میں شامل ہوگا ۔
صدقہ بھی اس وقت پورا ہوگا جب اس کا قبضہ کسی حق دار کو دیا جاۓ گا۔
(41)"بالتمكن من الانتفاع يتقرر الأجر على المستأجر"
جب مستاجرکا چیز سے منافع اٹھانا ممکن ہو جاۓ تو اس پر اجرت دینا لازم ہوجاتا ہے۔
مثال:ایک بندہ نے زمین کرایہ پر لی کہ اس میں زراعت کرے گا۔پھر ایسا ہوا کہ سیلاب آیا اور زمین کھیتی باڑی کے قابل نہ رہی ۔اب اس پر اجرت دینا لازم نہیں رہا کیونکہ منافع ختم ہوگیا۔
ایک بندہ نے مکان کرایہ پر لیا ۔جب اس نے دیکھا تو مکان میں نہ بجلی ہے اور نہ پانی ہے اس لیے وہ مکان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا تو اب اجرت دینا لازم نہیں۔
گاڑی کرایہ پر لی،مگر گاڑی چل ہی نہیں رہی تو اب بھی اس کی اجرت دینا لازم نہیں ۔اگر گاڑی چل سکتی تھی اور خود نہیں چلائی تو کرایہ دینا لازم ہوگیا۔
(42)"الجمع بين الخَلَف والأصل لا يكون"
اصل اور اس کے خلف کو جمع نہیں کیا جاسکتا۔
مثال:وضو اصل اور تیمم خلف ہے۔
پانی کی موجودگی میں کوئی بندہ تیمم نہیں کر سکتا۔
اگر غسل واجب ہو اور کچھ پانی موجود ہو جس سے سارے جسم پر پانی بہانا ممکن نہ ہو تو تیمم کیا جاۓ گا۔ایسا نہیں ہو سکتا تیمم بھی ہو اور پانی کو بھی استعمال کیا جاۓ۔
متمتع کے پاس بکری کی آدھی قیمت ہو اور وہ پانچ روزے رکھے تو بھی جائز نہیں ۔کیونکہ اصل اور خلف جمع نہیں ہو سکتے۔
(43)"الجنون إذا وجد مرة فهو لازم أبداً"
جب ایک بار بندہ مجنون ثابت ہو گیا تو وہ ہمیشہ کے لیے لازم ہو جاتا ہے۔
مثال:(شرط یہ ہے کہ ماہر طبیب نے اس کو مجنون قرار دیا ہو۔
ایک دفعہ مرد کو جنون ہوگیا تھا اور ڈاکٹر نے اس پر جنون کا حکم لگا دیا۔
پھر ایک بار اس نے بیوی کو طلاق دے دی اب اس نے کہا کہ میں نے حالت جنون میں طلاق دی تھی تو اب اگر اس بات پر قسم کھاۓ تو اس کی بات کا اعتبار کیا جاتا ہے۔
اگر یہ پتہ چلا کہ فلاں مرتد ہوگیا تھا اور اسآدمی نے کہا کہ اس کو جنون ہوگیا تھا تو اس کی بات کا اعتبار کیا جاۓ گا۔
(44)"الحاكم إذا قضى في المجتهد فيه بشيء فليس لمن بعده من الحكام أن يبطل ذلك"
جب جج نے کسی ایسے معاملہ میں فیصلہ دیا جو اجتہادی تھاتو اس کے بعد والا قاضی اسی فیصلہ کو تبدیل نہیں کر سکتا۔
مثال:جب ایک قاضی نے حکم دیا کہ فلاں عورت اس مرد کے لیے حلال ہے تو دوسرا قاضی اس کے حکم کو تبدیل نہیں کر سکتا۔
اگر ایک قاضی نے یہ حکم دیا کہ خلع فسخ نکاھ ہے پھر اسی عورت کا کسی کے نکاھ کردیا تو اب دوسرا قاضی اس پہلے کے فیصلہ کو تبدیل نہیں کر سکتا۔
(45)"بدون السبب لا يثبت الحكم"
سبب کے بغیر حکم ثابت نہیں ہوگا۔
سورج کاغروب ہونا مگرب کی نماز کے وجوب کا سبب ہے۔اگر غروب ثابت نہیں ہوگا تو غروب کا فریضہ بھی نہیں ہوگا۔
محصن زانی پر رجم لاز ہے اگر وہ محصن نہیں ہے تو رجم بھی نہیں ہوگا۔
بچہ چھوٹا تھا اس کا کسی عورت سے نکاح کردیا گیا پھر اس عورت کا بچہ پیدا ہوا تو اس بچہ کی نسبت جس بچہ سے عورت کا نکاح ہوا ہے کی طرف نہیں ہوگی۔
(46)"الشهادة حجة في حق الكل، والإقرار حجة في حق المقرِّ خاصة "
گواہی ہر ایک کے حق کو ثابت کرتی ہے جبکہ اقرار صرف اقرار کرنے والے کے لیے ہوتا ہے۔
مثال:اگر دو بندوں نے کسی کے خلاف گواہی دی کہ اس نے چوری کی ہے اور ساتھ یہ بھی گواہی دی کہ چوری کا مال فلاں کو ہبہ کیا ہے تو اب چور کو بھی پکڑا جاۓ گا اور جس کے پاس چوری کا مال تھا اس کو بھی پکڑا جاۓ گا۔
اگر کسی نے اقرار کیا کہ اس نے چوری کی اور اس کے ساتھ فلاں بھی چوری میں شریک تھا۔اب اس کا اقرار اپنے لیے تو درست سمجھا جاۓ گا جو دوسرے کو ساتھ شریک کر رہا ہے اس کے لیے گواہی کی ضرورت ہوگی۔
اگر ایک بندہ پر کسی جرم کا الزام تھا مگر گواہوں نے چار بندوں کے خلاف گواہی دی تو تو ان سب کو پکرا جاۓ گا۔
(47)"الشبهة إنَّما تؤثر إذا اقترنت بالسبب الموجب"
شبہ اس وقت مؤثر ہوگا جب اس کے ساتھ سبب بھی ہوگا جو اس کا موجب(دلیل)ہوگا۔
مثال:اگر کسی عورت سے ہمبستری کی ،اس گمان سے کہ یہ اس کی بیوی ہے تو اس پر حد نہیں لگے گی مگر تعزیر ہوگی کیونکہ وہ اس کی بیوی ثابت نہیں ہوئی۔
کسی نے دوسرے کو قتل کر دیا۔پھر اختلاف ہوا کہ یہ قتل قاتل نے عمدا کیا تھا یا خطا تھا تو شبہ کی وجہ سے قصاص ساقط ہو گیا لیکن دیت ادا کی جاۓ گی۔
کسی نے چوری کی اور پھر کہان کہ اس کا اس مال میں حق تھا تو اب اس پرشبہ کی وجہ سے حد نہیں لگے گی ۔
(48)"الضمان بالشك لا يجب"
شک کی وجہ سے ضمان واجب نہیں ہوتی۔
مثال:ایک بندہ کو گاڑی لگی اور شدید زخمی ہو گیا پھر اس کا علاج کروایا گیا واور شفا پانے کے بعد مر گیا تو اب اس کی دیت نہین دی جاۓ گی کیونکہ شک ہے ان زخموں کی وجہ سے مرا یا قدرتی موت مر گیا۔
کسی کے پاس ودیعت رکھوائی تھی ۔اور وہ ہلاک ہوگئی۔اب امین کہتا ہے کہ اس کی حفاظت میں ہی قدرتی طور پر ہلاک ہوئی جبکہ مالک کہتا ہے امین کی وجہ سے ہلاک ہوئی اب شک آگیا اس لیے امین پر ودیعت کی ہلاکت کی وجہ سے ضمان نہیں ہوگا۔جب تک مالک اس پر گواہی نہ پیش کردے۔
(49)"خير الأمور أوساطها"
درمیانی کام سب سے بہتر ہوتے ہیں۔
مثال:موصی اور وارث کا وراثت تقسیم میں اختلاف ہوگیا تو دونوں کی بات کا خیال رکھتے ہوۓ متوسط فیصلہ کیا جاۓ گا۔
کسی انسان پر کسی چیز کی قیمت واجب ہوگئی اب تاجر اس ی قیمت میں اختلاف کر رہے ہیں،کوئی زیادہ بتا رہا اور کوئی کم،تو درمیانی قیمت پر فیصلہ کیا جاۓ گا۔
ایک معاملہ میں لوگوں کی آراء مختلف ہوں تو درمیانی راۓ پر عمل کیا جاۓ گا۔
(50)"لاضرر و لا ضرار"
نہ نقصان دو نہ ہی نقصان لو۔
مثال:اگر مالک نے اپنی ملکیت میں کوئی ایسا کام کیا جس جسے دوسرے کو ضرر ہو تو مالک کو اس سے روکا جاۓ گا۔جیسے گھر میں اونچی آواز میں گانے وغیرہ چلاتا ہے۔
اگر وصیت سے کسی کا نقصان ہو رہا ہوتو اگرچہ وصیت کو پورا کیا جاتا ہے مگر نقصان کی وجہ سے وصیت کو پورا نہیں کیا جاۓ گا۔
بیوی کو تکلیف دینے کی غرض سے نہیں روکا جاسکتا۔
اگر کسی نے مسلمانوں میں قتل وغارت کی کوشش ی تو اس کو قتل کیا جاۓ گا تا کہ ضرر سے بچا جاۓ۔
الحمدللہ پچاس فقہی قاعدے اللہ تعالی کی نصرت و اعانت سے مکمل کیے گۓ جو مختلف کتب سے اکٹھے کیے گۓ تھے۔بحمد اللہ تعالی و بتوفیقہ۔
0 comments:
Post a Comment