خطباء کی خدمت میں....!!!
آج کل ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے جو دن بدن بڑھتا جارہاہے،خطبا کے لیے بطور خاص، کہ لوگ بالکل خطبہ کے وقت آتے ہیں،خطبہ سنتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اورچلے جاتے ہیں۔
خطیب کی گفتگو سے سامعین کو زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی، اکثر مساجد میں یہی ہوتاہے۔
آج سے سے چند سال پہلے جنگ اخبار برطانیہ میں ایک نوجوان کا مراسلہ شائع ہوا، اس نے لکھا کہ اب ہم نے یہاں مساجد میں جانا کم کردیا ہے، اور اس کی تین وجوہات ہیں۔
ایک وجہ تو یہ ہے کہ خطیب صاحب جس موضوع پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں وہ ہماری دلچسپی کے موضوع نہیں ہیں۔
ہماری ضرورت کے مسائل اورہیں۔ حلال و حرام کےمسائل ،معاشرت، نکاح ،طلاق کے مسائل ہیں جبکہ وہ کسی اور موضوع پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے جو وہ کہہ رہے ہوتے ہیں ان سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ جس زبان میں و ہ بات کر رہے ہوتے ہیں وہ ہمیں سمجھ نہیں آتی۔ان کی زبان اورہے اورہماری زبان اور ہے۔( یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ نئی نسل آپ کی زبان و اسلوب کو نہیں جانتی۔)
اور تیسری وجہ یہ ہے کہ ہم تو مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جاتے ہیں لیکن تقریباً ہر نماز کے بعد کوئی صاحب اٹھتے ہیں اور اپیل کرنے لگتے ہیں یا دامن پھیلا دیتے ہیں۔ ہم چندہ دینے تو نہیں جاتے، ہم تو مسجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں۔ ہر نماز کے بعد تو ہم چندہ نہیں دے سکتے۔ یہ تین وجوہا ت اس نے اپنے مراسلہ میں لکھی تھیں۔
آج کی اصطلاحات، آج کا اسلوب اور آج کی نفسیات بالکل مختلف ہیں۔آج سے پچاس سال پہلے کے اسلوب سے،
زبان بدل گئی ہے، معیار بدل گیا ہے ،محاورے بدل گئےہیں،نفسیات بدل گئی ہے۔ بات سمجھانے کے لیے عرض ہے، کہ ہمارے بڑے مفکرین میں سے ایک مولانا ابوالکلام آزاد گزرے ہیں۔ ان کی تقریر، ان کی خطابت اپنے دور کی پرشکوہ خطابت تھی، اپنے دور میں معیاری سمجھی جاتی تھی۔ آج اگر آپ ان کے لہجے میں بات کریں تو لوگ پوچھتے ہیں کہ مولانا صاحب کوئی وظیفہ پڑھ رہے ہیں؟
کیونکہ آج کی زبان وہ نہیں ہے۔ آج اگر آپ سادہ لہجے میں بات کریں گے تو بات بنے گی۔
آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے گفتگو کا معیار یہ تھا کہ آپ نے عشا کی نماز کے بعد گفتگو شروع کی ہے اور صبح فجر ہوگئی ہے۔ لوگوں کو پتہ نہیں چلا ٹائم کا، لوگ آرام سے بیٹھے سن رہے ہیں۔ اب آپ آدھے گھنٹے سے زیادہ بات کریں گے تو لوگ سوچیں گے کہ یہ کیا بور کر رہا ہے۔ مولوی صاحب بس بھی کرو۔ آپ سادہ لہجوں میں مختصر وقت میں اپنی بات سمجھا سکتے ہیں یا نہیں سمجھا سکتے۔
آج خطابت یہ نہیں ہے کہ مولوی صاحب تقریر کرکے جائیں تو لوگ کہیں کہ واہ واہ بہت زبردست تقریر کی ہے ۔لیکن پوچھا جائے کہ مولوی صاحب نے کہا کیا تھا؟ کچھ پتہ نہیں ہے۔
آپ کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ آپ کے ساتھ لوگوں کے انس کی کمی کے اسباب کیا ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ آپ لوگوں کے مانوس لہجے میں بات نہیں کرتے، لوگوں کی نفسیات کے مطابق بات نہیں کرتے۔
آپ کی خطابت وہی پرانی، مناظرانہ، مجادلانہ، طعن وتشنیع، بازوکس لینا، آج سے تیس سال پہلے والے سنٹر پر کھڑی ہے۔ اور اب جو خطابت کے میدان میں تبدیلی آئی ہے وہ ہم نے محسوس نہیں کی، اس کو اپنایا نہیں ہے۔
آج کی زبان اورتحریر دونوں سادہ ہیں۔ جتنی سادہ اورمختصر آپ بات کریں گے، اتنے بڑے آپ خطیب ہیں۔
دوسری بات یہ کہ اب عام پڑھے لکھے لوگوں کے پاس بھی معلومات کا ذریعہ صرف علماء یا خطباء نہیں ہیں۔جو آج سے تیس چالیس سال پہلے معلومات کا ذریعہ تھے۔ پڑھا لکھا آدمی بھی ان کی دی ہوئی معلومات کو درست سمجھ لیتا تھا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ درست معلومات یا غلط، لیکن لوگوں کے پاس معلومات کے اور ذرائع بھی ہیں۔ کوئی انٹر نیٹ پر بیٹھا ہے، کوئی اخبارات پڑھتا ہے،میگزین پڑھتاہے، چینل کے پروگرام دیکھتا ہے،بات غلط یا صحیح کی نہیں، لیکن اس کی معلومات کا دائرہ آپ سے وسیع ہے۔ آج کے اس میڈیا کے پھیلاؤ نے ایک عام آدمی کو معلومات کی بہت سی کھڑکیاں دے دی ہیں۔ وہ اپنی میز پر بیٹھے بیٹھے بٹن دباتا ہے اور طرح طرح کی معلومات لے لیتا ہے۔ اس کے بعد وہ آپ سے مسئلہ پوچھتا ہے۔
چنانچہ آپ کو اپنے قارئین کو مطمئن کرنے کے لیے اپنی معلومات کا دائرہ وسیع کرنا پڑے گا۔آپ کو معلومات کے ساتھ محاکمہ بھی کرنا پڑے گا۔ عام آدمی صرف معلومات پر فیصلہ کرے گا۔ یہ آپ کا کام ہے کہ آپ کے پاس جو معلومات ہیں، آپ اس پر درست فیصلہ کریں کہ یہ ٹھیک اور شرعی دلیل کی بات ہے جبکہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔
لیکن آپ یہ کام نہیں کررہے اور نہ لوگوں کی ذہنی سطح پر آرہے ہیں۔ نہ معلومات کا دائرہ وسیع ہے، بلکہ بہت سی جگہوں پر خارجی مطالعہ کو ویسے بھی حرام سمجھا جاتا ہے،( إلا من رحم اللہ )
معلومات تو جہاں سے بھی ملیں لے لینی چاہئیں۔ لوگ آپ کے پاس کس لیے آتے ہیں؟ دینی معلومات لینے کے لیے۔ خطبے یا جمعے کیوں سنتے ہیں،درس کیوں سنتے ہیں؟
اگر وہی بات ان کو رات کوکسی چینل میں آپ سے اچھے لہجے میں مل جائے تو وہ آپ کے پاس کیوں آئیں گے؟
بات اسلوب کی ہوتی ہے،لہجے کی ہوتی ہے، شائستگی کی ہوتی ہے۔ جو بات آپ لڑائی کے انداز میں کر رہے ہیں ، وہ رات چینل میں بیٹھے ہوئے صاحب بڑی محبت کے انداز میں کر رہے ہیں تو پھر سننے والے کو وہ بات زیادہ پسند آ جائے گی کہ اس نے کتنی اچھی بات کہی ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حالات کے رخ پر جو تبدیلیاں ہیں، ان کو محسوس کرنا چاہیے۔
حالات کے مطابق ڈھلنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اپنا موقف، اپنا مذہب یا اپنا عقیدہ چھوڑ دیں ۔ نہیں، بلکہ اپنے لہجے کو، اسلوب کو، اپنی گفتگو کے انداز کو، تحریر کے انداز کو آج کے حالات کے مطابق اپنانا ہوگا ۔
مشکل الفاظ اور اصطلاحات کی بجائے عام فہم اسلوب اختیار کریں، لوگوں کی ذہنی سطح سمجھیں۔
تاکہ علماء دین کا مقام اور قدرومنزلت بحال ہو،
آج کل ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے جو دن بدن بڑھتا جارہاہے،خطبا کے لیے بطور خاص، کہ لوگ بالکل خطبہ کے وقت آتے ہیں،خطبہ سنتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اورچلے جاتے ہیں۔
خطیب کی گفتگو سے سامعین کو زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی، اکثر مساجد میں یہی ہوتاہے۔
آج سے سے چند سال پہلے جنگ اخبار برطانیہ میں ایک نوجوان کا مراسلہ شائع ہوا، اس نے لکھا کہ اب ہم نے یہاں مساجد میں جانا کم کردیا ہے، اور اس کی تین وجوہات ہیں۔
ایک وجہ تو یہ ہے کہ خطیب صاحب جس موضوع پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں وہ ہماری دلچسپی کے موضوع نہیں ہیں۔
ہماری ضرورت کے مسائل اورہیں۔ حلال و حرام کےمسائل ،معاشرت، نکاح ،طلاق کے مسائل ہیں جبکہ وہ کسی اور موضوع پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے جو وہ کہہ رہے ہوتے ہیں ان سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ جس زبان میں و ہ بات کر رہے ہوتے ہیں وہ ہمیں سمجھ نہیں آتی۔ان کی زبان اورہے اورہماری زبان اور ہے۔( یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ نئی نسل آپ کی زبان و اسلوب کو نہیں جانتی۔)
اور تیسری وجہ یہ ہے کہ ہم تو مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جاتے ہیں لیکن تقریباً ہر نماز کے بعد کوئی صاحب اٹھتے ہیں اور اپیل کرنے لگتے ہیں یا دامن پھیلا دیتے ہیں۔ ہم چندہ دینے تو نہیں جاتے، ہم تو مسجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں۔ ہر نماز کے بعد تو ہم چندہ نہیں دے سکتے۔ یہ تین وجوہا ت اس نے اپنے مراسلہ میں لکھی تھیں۔
آج کی اصطلاحات، آج کا اسلوب اور آج کی نفسیات بالکل مختلف ہیں۔آج سے پچاس سال پہلے کے اسلوب سے،
زبان بدل گئی ہے، معیار بدل گیا ہے ،محاورے بدل گئےہیں،نفسیات بدل گئی ہے۔ بات سمجھانے کے لیے عرض ہے، کہ ہمارے بڑے مفکرین میں سے ایک مولانا ابوالکلام آزاد گزرے ہیں۔ ان کی تقریر، ان کی خطابت اپنے دور کی پرشکوہ خطابت تھی، اپنے دور میں معیاری سمجھی جاتی تھی۔ آج اگر آپ ان کے لہجے میں بات کریں تو لوگ پوچھتے ہیں کہ مولانا صاحب کوئی وظیفہ پڑھ رہے ہیں؟
کیونکہ آج کی زبان وہ نہیں ہے۔ آج اگر آپ سادہ لہجے میں بات کریں گے تو بات بنے گی۔
آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے گفتگو کا معیار یہ تھا کہ آپ نے عشا کی نماز کے بعد گفتگو شروع کی ہے اور صبح فجر ہوگئی ہے۔ لوگوں کو پتہ نہیں چلا ٹائم کا، لوگ آرام سے بیٹھے سن رہے ہیں۔ اب آپ آدھے گھنٹے سے زیادہ بات کریں گے تو لوگ سوچیں گے کہ یہ کیا بور کر رہا ہے۔ مولوی صاحب بس بھی کرو۔ آپ سادہ لہجوں میں مختصر وقت میں اپنی بات سمجھا سکتے ہیں یا نہیں سمجھا سکتے۔
آج خطابت یہ نہیں ہے کہ مولوی صاحب تقریر کرکے جائیں تو لوگ کہیں کہ واہ واہ بہت زبردست تقریر کی ہے ۔لیکن پوچھا جائے کہ مولوی صاحب نے کہا کیا تھا؟ کچھ پتہ نہیں ہے۔
آپ کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ آپ کے ساتھ لوگوں کے انس کی کمی کے اسباب کیا ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ آپ لوگوں کے مانوس لہجے میں بات نہیں کرتے، لوگوں کی نفسیات کے مطابق بات نہیں کرتے۔
آپ کی خطابت وہی پرانی، مناظرانہ، مجادلانہ، طعن وتشنیع، بازوکس لینا، آج سے تیس سال پہلے والے سنٹر پر کھڑی ہے۔ اور اب جو خطابت کے میدان میں تبدیلی آئی ہے وہ ہم نے محسوس نہیں کی، اس کو اپنایا نہیں ہے۔
آج کی زبان اورتحریر دونوں سادہ ہیں۔ جتنی سادہ اورمختصر آپ بات کریں گے، اتنے بڑے آپ خطیب ہیں۔
دوسری بات یہ کہ اب عام پڑھے لکھے لوگوں کے پاس بھی معلومات کا ذریعہ صرف علماء یا خطباء نہیں ہیں۔جو آج سے تیس چالیس سال پہلے معلومات کا ذریعہ تھے۔ پڑھا لکھا آدمی بھی ان کی دی ہوئی معلومات کو درست سمجھ لیتا تھا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ درست معلومات یا غلط، لیکن لوگوں کے پاس معلومات کے اور ذرائع بھی ہیں۔ کوئی انٹر نیٹ پر بیٹھا ہے، کوئی اخبارات پڑھتا ہے،میگزین پڑھتاہے، چینل کے پروگرام دیکھتا ہے،بات غلط یا صحیح کی نہیں، لیکن اس کی معلومات کا دائرہ آپ سے وسیع ہے۔ آج کے اس میڈیا کے پھیلاؤ نے ایک عام آدمی کو معلومات کی بہت سی کھڑکیاں دے دی ہیں۔ وہ اپنی میز پر بیٹھے بیٹھے بٹن دباتا ہے اور طرح طرح کی معلومات لے لیتا ہے۔ اس کے بعد وہ آپ سے مسئلہ پوچھتا ہے۔
چنانچہ آپ کو اپنے قارئین کو مطمئن کرنے کے لیے اپنی معلومات کا دائرہ وسیع کرنا پڑے گا۔آپ کو معلومات کے ساتھ محاکمہ بھی کرنا پڑے گا۔ عام آدمی صرف معلومات پر فیصلہ کرے گا۔ یہ آپ کا کام ہے کہ آپ کے پاس جو معلومات ہیں، آپ اس پر درست فیصلہ کریں کہ یہ ٹھیک اور شرعی دلیل کی بات ہے جبکہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔
لیکن آپ یہ کام نہیں کررہے اور نہ لوگوں کی ذہنی سطح پر آرہے ہیں۔ نہ معلومات کا دائرہ وسیع ہے، بلکہ بہت سی جگہوں پر خارجی مطالعہ کو ویسے بھی حرام سمجھا جاتا ہے،( إلا من رحم اللہ )
معلومات تو جہاں سے بھی ملیں لے لینی چاہئیں۔ لوگ آپ کے پاس کس لیے آتے ہیں؟ دینی معلومات لینے کے لیے۔ خطبے یا جمعے کیوں سنتے ہیں،درس کیوں سنتے ہیں؟
اگر وہی بات ان کو رات کوکسی چینل میں آپ سے اچھے لہجے میں مل جائے تو وہ آپ کے پاس کیوں آئیں گے؟
بات اسلوب کی ہوتی ہے،لہجے کی ہوتی ہے، شائستگی کی ہوتی ہے۔ جو بات آپ لڑائی کے انداز میں کر رہے ہیں ، وہ رات چینل میں بیٹھے ہوئے صاحب بڑی محبت کے انداز میں کر رہے ہیں تو پھر سننے والے کو وہ بات زیادہ پسند آ جائے گی کہ اس نے کتنی اچھی بات کہی ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حالات کے رخ پر جو تبدیلیاں ہیں، ان کو محسوس کرنا چاہیے۔
حالات کے مطابق ڈھلنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اپنا موقف، اپنا مذہب یا اپنا عقیدہ چھوڑ دیں ۔ نہیں، بلکہ اپنے لہجے کو، اسلوب کو، اپنی گفتگو کے انداز کو، تحریر کے انداز کو آج کے حالات کے مطابق اپنانا ہوگا ۔
مشکل الفاظ اور اصطلاحات کی بجائے عام فہم اسلوب اختیار کریں، لوگوں کی ذہنی سطح سمجھیں۔
تاکہ علماء دین کا مقام اور قدرومنزلت بحال ہو،
مفتی عامر عباسی۔
مدرس جامعہ بنوریہ راولپنڈی۔
0 comments:
Post a Comment